• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دورکعت پڑھ کرسلام پھیردیا،یایااللہ پاک کہنے سے نماز کاحکم

  • فتوی نمبر: 16-296
  • تاریخ: 15 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ

تین رکعات وتر نماز کی نیت کی اور دو رکعت پڑھنے کے بعد بھولے سے ایک طرف سلام پھیر دیا اور منہ سے یہ الفاظ نکلے: ’’یا الله پاک‘‘ پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کر لیا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ وتر ہوں گے یا از سر نو پڑھنے پڑیں گے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد ’’یا الله پاک‘‘ کہنے کی کیا وجہ تھی؟ یعنی جیسے آدمی نماز ختم ہونے کے بعد دعا کرتا ہے  تو یہ الفاظ بطور دعا کے کہے تھے یا کوئی اور وجہ تھی؟

جواب وضاحت:نہیں وہ الفاظ اس وجہ سے نکلے تھے کہ اچانک جب دو رکعت کے بعد سلام پھیرا تو فوراً ذہن میں آیا کہ میں تو وتر پڑھ رہا ہوں تو یہی بات یاد آنے سے یہ الفاظ نکلے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

’’یا الله پاک‘‘ کے الفاظ اگرچہ اردو کے ہیں اور اچانک منہ سے نکلے ہیں لیکن چونکہ یہ الفاظ ذکر کے ہیں اس لیے نماز فاسد نہیں ہوئی۔

عزیزالفتاویٰ: (243) میں ہے:

سوال: ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے ناگاہ بندوق یا گولہ کی آواز اس کے کان میں آئی بے اختیار اس کے منہ سے محض ’’الا الله‘‘ نکلا، اس صورت میں نماز فاسد ہو جاتی ہے یا نہ؟  ۔۔۔ الخ

الجواب: قال في الدر المختار: و لو سقط شيء من السطح فبسمل … و في الشامية: ( قوله فبسمل ) يشكل عليه ما في البحر : لو لدغته عقرب أو أصابه وجع فقال بسم الله قيل تفسد لأنه كالأنين ، وقيل لا لأنه ليس من كلام الناس وفي النصاب : وعليه الفتوى وجزم به في الظهيرية ، وكذا لو قال يا رب كما في الذخيرة.  پس معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں راجح عدم فساد نماز ہے۔ ۔۔۔ الخ

در مختار: (226)میں ہے:

فروع قرأ بالفارسية أو التوراة أو الإنجيل إن قصة تفسد وإن ذكرا لا وألحق به في البحر الشاذ لكن في النهر الأوجه أنه لا يفسد ولا يجزىء.

بحر رائق: (1/ 323)میں ہے:

 (قوله كما لو قرأ بها عاجزا) أي لو قرأ بالفارسية ….. وفي الهداية والخلاف في الجواز إذا اكتفي به ولا خلاف في عدم  لفساد حتى إذا قرأ معه بالعربية قدر ما تجوز به الصلاة جازت صلاته  وفي فتاوى قاضيخان إنها تفسد عندهما والتوفيق بينهما بحمل ما في الهداية على ما إذا كان ذكرا أو تنزيها  ويحمل ما في الفتاوى على ما إذا كان المقروء من مكان القصص والأمر والنهي كالقراءة الشاذة فإنهم صرحوا في الفروع أنه لا يكتفي بها ولا تفسد وفي أصول شمس الأئمة أن الصلاة تفسد بها فيحمل الأول على ما إذا كان ذكرا والثاني على ما إذا كان غير ذكر.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved