- فتوی نمبر: 7-2
- تاریخ: 22 جون 2014
- عنوانات: عقائد و نظریات > ادیان و مذاہب
استفتاء
ہم چھ بھائی ہیں سب سے بڑا بھائی علاتی یعنی باپ شریک ہے، سب کے نام عمر کی ترتیب سے لکھتا ہوں (1۔ ***، 2۔***، 3۔ ***، 4۔***، 5۔***، 6۔ ***)۔ ہمارے والدین زندہ ہیں اور علاتی بھائی یعنی*** کی والدہ بہت پہلے فوت ہو گئی ہے، ہم سارے اکٹھے رہتے تھے اور حساب کتاب گھر میں ایک تھا، کسی نے گھر کے اخراجات برداشت کرنے تھے اور کسی نے تعلیم حاصل کرنا تھا 1989 یا 1990 سے 1997 تک گھر کے اخراجات والد صاحب اور بڑے بھائی برداشت کرتے رہے ہیں۔ 1997 سے 2005ء تک بھائی ***گھر کے اخراجات برداشت کرتے رہے ہیں اور بڑا بھائی کبھی تنخواہ میں سے تھوڑا بہت گھر میں کرچ کرتا یا بچت کر کے گھر کے لیے اجتماعی سامان لے لیتا، 2005ء میں علاتی بھائی اپنے اہل و عیال کو راولپنڈی لے گیا، اس سے قبل تنخواہ کی کمی کی وجہ سے وہ 2005ء سے اپنے گھر والوں کو راولپنڈی نہ لا سکا یعنی اس سے پہلے وہ وزیرستان میں رہتے تھے۔
ان کے گھر والے تعداد میں تقریباً ہمارے برابر ہیں یعنی جتنی ہماری تعداد ہے اتنی ہی ان کی بھی ہے۔ 2005 سے 2013ء تک جب بھی علاتی بھائی وزیرستان آتے تو صرف گاڑی کا کرایہ لاتے اس کے علاوہ گاؤں میں کھانے وغیرہ کے لیے ایک پیسہ بھی نہ دیتے اور نہ لاتے تھے، *** نے گھریلو اخراجات برداشت کیے ہیں، مختار الدین نے کچھ گھریلو اخراجات برداشت کیے اور بقیہ گھر کے لیے اجتماعی سامان لیتا تھا، ***نے صرف ایک سال پرائیویٹ نوکری کی ہے، البتہ ***کی تنخواہ اچھی تھی، باقی تین چھوٹے بھائیوں نے اپنی زمینوں کی کاشتکاری کے علاوہ نقد روقیہ نہیں کما، سامان میں سے 7،5،1 اور 2 میں سے ایک بندوق مکمل اور دوسری بندوق میں60000 روپیہ صرف مختار الدین نے ادا کر کے سامان لیا تھا اور دوسری بندوق میں چار ہزار***نے ادا کیے تھے، کیونکہ بندوق کی قیمت دس ہزار تھی اور 8۔9۔10 نمبر والا سامان ***نے لیا تھا، یہ چیزیں انہوں نے اپنی ذاتی کمائی سے خریدیں تھیں۔
اب آپ حضرات سے پوچھنا یہ ہے:
1۔اس سامان کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ 2۔ اور بھائیوں نے جو قرضہ لیا ہے وہ کون ادا کرے گا؟ خواہ انہوں نے گھر کے خرچہ کے لیے لیا ہو یا اپنی تعلیم وغیرہ کے لیے، بھائیوں کا آپس میں معاہدہ یہ ہوا تھا کہ گھر کے لیے جو قرضہ لیا جائے گا وہ بعد میں ہم اکٹھا ادا کریں گے، یہ قرضہ اکٹھا ادا کرنے کی صراحت کی تھی، یہ اور مسئلے کے ضمن میں آئی تھی۔ 3۔ اس سامان میں والد یا والدہ کو کچھ مل سکتا ہے یا نہیں؟ 4۔ ہمارے والد صاحب نے 2013۔ 9۔ 28 کو کہا کہ وہ تین زمینیں (1۔ راستے والی زمین جو نظام اللہ کے پاس مرہونہ ہے۔ 2۔ ٹریکٹر والی زمین۔ 3۔ خڑیگی والی جو شیخ عبد اللہ کے گھر کے ساتھ ہے) تین چھوٹے بیٹوں کی ہے اور نیچے والا گھر ان بیٹوں کی والدہ کا ہے، میں اس کو پکا کر دیا یعنی میرے مرنے کے بعد ان میں میراث جاری نہیں ہو گی، یہ ان کی ہے (بیٹوں کو اس وجہ دیا کہ یہ تینوں بیٹھے غیر شادی شدہ و بے روز گار اور چھوٹے ہیں اور ان کی والدہ یعنی اپنی کو مہر کی وجہ )۔ 29 دسمبر 2013ء کو والد نے پھر صرف بیٹوں والے قول سے رجوع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ میری ساری زمینیں ان تین چھوٹے بیٹوں کی ہوں گی جب تک ان تینوں کی شادی اور نوکری نہ ہوئی ہو، اگرچہ میں مر جاؤں پھر بھی تقسیم نہ ہو گی، جب تک ان تینوں کی شادی اور نوکری نہ ہوئی ہو جب سب کی شادی ہو جائے اور نوکری مل جائے تو پھر میراث تقسیم کی جائے گی، ان بیٹوں کی والدہ یعنی اپنی بیوی کو گھر دینے کے قول سے رجوع نہیں کیا۔ ان اقوال کا کیا حکم ہے؟ بیٹوں نے ان زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
5۔ علاتی بھائی نے 140000 زمین کے (جو کہ والد صاحب کی تھی اور گاؤں میں بیچی گئی تھی) پیسے تھے، *** کو کاروبار کے لیے دیے تھے، اور کاروبار میں نقصان ہوا اور بعض گھر میں خرچ ہو گئے۔ تو اب ان کا ضمان*** پر آئے گا یا نہیں؟ جبکہ بھائی کو یہ رقم دیتے وقت اس کی کوئی حیثیت مقرر نہیں ہوئی تھی۔
6۔ بڑے بھائی کی دوسری شادی ان کے کھاتے میں شمار ہو گی یا نہیں؟ ان سب سامان، قرضہ اور کاروبار کی صورت میں ہمارا حساب کتاب اکٹھا اور اجتماعی تھا اور ہم اکٹھے رہتے تھے۔
وزیر ستان کا عرف
نوٹ:1۔ شمالی وزیرستان میں بھائیوں کی علیحدگی کی صورت میں عرف یہ ہے کہ جس بھائی نے ایک روپیہ بھی نہ کمایا ہو سب کو علیحدگی کی صورت میں سامان اور نقد برابر ملیں گے، کیونکہ علیحدگی سے پہلے سارا سامان اجتماعی ہوتا ہے، اس کے نفع و نقصان میں سارے بھائی شریک ہوتے ہیں، اسی طرح بھائیوں کی کمائی کا بھی اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ کام کا اعتبار ہوتا ہے، کوئی بھائی گھر کے کام کے لیے ہوتا ہے اور کوئی باہر کمانے کے لیے ہوتا ہے۔
2۔ وزیرستان میں جب بھائی آپس میں خرچ کرتے ہیں یعنی ایک گھر کے سارے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہیں اور دوسرے بھائیوں کی کمائی کا پیسہ بچتا رہتا ہے تو وہ جو خرچ کرنے والا ہوتا ہے وہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان شمار نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ بعد میں وہ ادا کرنا ہوتا ہے، ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ علیحدگی کے وقت مال و دولت اور سامان کو سارے بھائیوں میں برابر تقسیم کرنا ہو گا اور اگر اس خرچ کو عرف میں تبرع سمجھا جاتا تو ایک بھی خرچ کرنے پر تیار نہ ہوتا۔
3۔ نیز ایک عرف یہ بھی ہے کہ بھتیجوں کو اجتماعی بھائیوں کے سامان میں حصہ بھی نہیں ملتا اور اگر بھتیجوں کی شادی، منگنی اور ان کے لیے کمرے بنانے میں اگر چچا نے اجتماعی مال سے یا انفرادی مال سے خرچ کیا ہو تو وہ تبرع نہیں ہوتا، بلکہ علیحدگی کے وقت بھتیجے کے والد سے شادی کے بقدر خرچہ حصہ میں سے کٹوتی ہوتی ہے۔ خواہ ان کے والد نے ہی اجتماعی مال سے کیوں نہ خرچ کیا ہو، ان سب کو جمع کر کے ان کے والد کو ادا کرنا پڑے گا اور ادا شدہ بھائیوں کی تعداد کے مطابق بھائیوں میں تقسیم ہو گا۔
4۔ اور قرضہ بھی ہر ایک پر برابر تقسیم ہو گا یعنی اگر کسی بھائی نے کوئی قرضہ لیا ہو خواہ گھر کے لیے لیا ہو یا ذاتی ضرورت کے لیے یا دوسرے لوگوں کو قرضہ دیا ہو تو وہ علیحدگی کے وقت تمام بھائیوں میں برابر تقسیم ہوتا ہے۔خواہ اس کی تصریح نہ کی گئی ہو۔
5۔ اگر بھائی اکٹھے رہتے ہوں تو ان میں سے ہر ایک شادی اور کمرے کا بندوبست اجتماعی مال سے کیا جاتا ہے اور اگر علیحدگی کے بعد کسی بھائی کی شادی باقی ہو تو اس صورت میں یا تو ساری زمینیں شادی کرنے تک اس کے قبضہ میں دی جاتی ہیں یا علیحدگی کے وقت شادی اور کمرے پر جو خرچہ ہوتا ہے وہ اجتماعی مال سے ادا کیا جاتا ہے یا علیحدگی کے بعد ہر بھائی نے اپنے حصہ بقدر ادا کرتا ہے۔
6۔ اگر بھائی اکٹھے رہتے ہوں اور اس حالت میں کوئی بھائی اپنی ذاتی کمائی تنخواہ وغیرہ سے کوئی چیز خریدے تو وہ سب کی مشترکہ سمجھی جاتی ہے، کیونکہ بعض بھائیوں کے گھر میں خرچ کرنے کی وجہ سے اس کو یہ پیسہ بچے ہیں جس کی وجہ سے اس نے یہ چیزیں خریدیں ہیں۔ اس مذکورہ عرف کو اکٹھا رہنے کی صورت میں سب مانتے ہیں عملاً بھی اور اعتقاداً بھی۔
مذکورہ بالا عرف وزیرستان کے بارے میں واقعہ کے عین مطابق ہے۔ تصدیق 1۔ قدرت اللہ ہمزونی، 2۔ زاہد احمد زیرکی، 3۔ نصر اللہ داوڑ۔
ہمارے بڑے بھائی مختار الدین کا کہنا ہے کہ میں نے جو چیزیں خریدی ہیں وہ میری ہیں، اور*** کہتا ہے کہ میں نے جو گھر پر خرچہ کیا اور قرضہ لیا ہے وہ اپنے لیے نہیں سارے گھر اور تمام افراد کے لیے لیا ہے۔ اب یہ قرضہ کون ادا کرے گا؟
سامان کی تفصیل
گھر کے چھ بھائیوں کا اجتماعی سامان جبکہ ہم سب اکٹھے رہتے تھے: 1۔ چار پلاٹ فتح جنگ میں۔ 2۔ دو بندوق اور پانچ میگزین تیس بور والی۔ 3۔ رفیع الدین یہ بھتیجا ہے کی شادی میں 180000 حق مہر اور دو تولے سونا 128000 روپے جس میں ***نے 120000 روپے، ***نے 20000 اور ہمارے والد صاحب نے 15000 روپے، باقی جو بچا وہ مختار الدین نے ادا کیے اور ان کی منگنی پر 25000 ہزار روپے خرچ آیا۔(4)۔*** (یہ بھی بھتیجا ہے) کی منگنی پر 10000روپے لگے۔ (5)۔ راولپنڈی والے گھر میں فریج 30000روپے کا، واشنگ مشین 3000روپے کا اور پانی والی موٹر 6000 روپے کی ہے۔ (6)۔ بڑے بھائی کی دوسری شادی پر 45000 روپے حق مہر (جہیز) انہوں نے خود جی پی فنڈ نکال کر ادا کیا اور شادی کا ب%
© Copyright 2024, All Rights Reserved