• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ڈیلر حضرات کا جانبین سے کمیشن لینا

استفتاء

مفتی صاحب مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ یہ جو ڈیلر حضرات ہوتے ہیں جو کسی کا گھر یا زمین یا کوئی اور چیز بکواتے ہیں وہ فریقین یعنی بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لیتے ہیں کیا ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو ڈیلر بائع اور مشتری کے درمیان صرف ملاقات کرواتا ہے اور ان میں سے کسی کا وکیل (نمائندہ) نہیں بنتا بلکہ فریقین خود آپس میں معاملہ کرتے ہیں ایسے ڈیلر کے لیے  جانبین یعنی بائع اور مشتری دونوں سے کمیشن لینا جائز ہے  ایسے ڈیلر کو دلال یا بروکر کہتے ہیں اور جس  ڈیلر کو بائع نے اپنی چیز بیچنے کا وکیل بنایا ہویا مشتری نے کوئی چیز خریدنے کے لیے وکیل بنایا ہو اور ڈیلر کسی ایک فریق کی طرف سے نمائندہ بن کر معاملہ کرتا ہےتو ایسے ڈیلر کے لیے جانبین سے کمیشن لینا جائز نہیں  جس نے اسے وکیل(کمیشن ایجنٹ) بنایا ہو  صرف اسی سے کمیشن لےسکتا ہے۔دوسری جانب سے نہیں لے سکتا۔

الدر المختار (4/ 560)میں ہے:

‌وأما ‌الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

وفى الشامية: (قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved