• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دھوکے سے نکاح نامہ میں مقرر شدہ مہر سے زیادہ مہر لکھنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنے بیٹے کا رشتہ اپنے ماموں کی بیٹی سے کیا ، رشتہ مانگتے وقت شرائط ،اور ڈیمانڈ بھی پوچھی تھیں، اس وقت انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے، فی سبیل اللہ نکاح ہوگا کیونکہ  تبلیغی جماعت سے ہمارا تعلق ہے۔ صرف  یہ شرط تھی کہ شادی شدہ بہن سے ملاقات پر پابندی نہیں ہوگی کیونکہ کسی رشتہ دار کا اس کے ہاں آنا جانا نہیں ہے،  ہم نے یہ شرط مان لی کہ ٹھیک ہے۔ تقریباً ایک سال  اس بات کو گزر گیا، انہوں نے کوئی ڈیمانڈ نہیں کی، نکاح سے دو دن پہلے ملاقات ہوئی تو اس وقت بھی انہوں نے کچھ نہیں کہا، بارات کے دن نکاح کے وقت جب دلہن کا وکیل دلہن سے اجازت لینے اور دستخط کروانے گیا تو ہم نے 5000/= روپے وکیل کو حق مہر کے طور پر دیے  کہ یہ لڑکی کو دے دینا، لیکن ان لوگوں نے دلہن کے وکیل کو بلیک میل کرکے شرط منوالی اور حق مہر پانچ ہزار روپے کی بجائے پچاس ہزار روپے نکاح نامے میں لکھ دیا، دلہن کے وکیل نے 50000 روپے اپنے  ذمے لے لیے اور اس  پر نکاح خواں کو  بھی راضی کر لیا، ہمیں وکیل نے نہیں بتایا۔ بات صرف پچاس ہزار پر ختم نہیں ہوئی، جب دلہن کا وکیل معہ دو گواہان  دلہن سے دستخط کروانے کے لیے گیا اور پانچ ہزار کی بجائے پچاس ہزار  50000/= حق مہر   پر دستخط کروا کے واپس آنے لگا تو دلہن کی والدہ اور بہنوں نے وکیل سے نکاح نامہ زبردستی لے لیا اور اس میں پانچ تولہ سونا بھی لکھ دیا۔ وکیل کسی مزاحمت کے  بغیر گواہوں کو چھوڑ کر نکاح خواں کے پاس واپس آگیا اور سارا قصہ بتایا تو نکاح خواں نے کہا کہ یہ غلط بات ہے، پہلے بھی 50000/=  روپے آپ نے اپنے ذمے لے لیے ہیں، اب ایسا نہیں ہوگا،نکاح خواں وکیل کا دوست تھا، اس لیے  اس نے کچھ پشتو کچھ اردو میں نکاح پڑھایا  50000/= روپے بھی گول مول کر کے پشتو میں کہا  صحیح سمجھ نہیں آیا کہ پانچ ہزار کہا ہے یا پچاس ہزار کہا ہے، ہمیں یہ سب کچھ اس وقت معلوم نہ ہو سکا، رازداری سے یہ سارا معاملہ ہوا۔ ہم بارات لے کر راولپنڈی آگئے 20/15دنوں کے بعد ہمیں کسی بندے نے بتایا کہ آپ کے ساتھ دھوکہ/فراڈ ہوا ہے۔ میں دلہن کے وکیل  کے پاس گیا اور سارا ماجرا معلوم کیا،  اس نے سارا معاملہ بتایا اور کہا کہ 50000/=روپے میں نے اپنے ذمے لیے ہیں، دلہن نے 50000/= پر یہ نکاح  قبول کیا ہے، باقی جو پانچ تولہ سونا لکھا ہے وہ لڑکی کے بھائی اور والدہ نے بعد میں لکھا ہے اور نکاح خواں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے جس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں،  اس لیے آپ لڑکی والوں سے بات کریں۔ ان ساری باتوں کا گواہ وکیل کا بیٹا بھی ہے جس نے اپنے والد سے باتیں معلوم کی ہیں اور  وہ  گواہی دیتا ہے کہ نکاح میں ایجاب و قبول کے وقت  50000/= کا ذکر ہوا ہے، جس کا اُس کو علم نہیں تھا کہ یہ لڑکے والوں کی مرضی ہے یا کہ میرے والد نے اس کا ذمہ لیا ہوا ہے،  بعد میں اُس کو علم ہوا کہ یہ کام بلیک میل کرکے کیا گیا ہے۔ دولہا کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہماری زبان پشتو نہیں ہے لیکن پشتو کچھ نہ کچھ سمجھ آتی ہے، اس لیے اچھی طرح تو بات سمجھ نہیں آئی   کہ  ایجاب وقبول میں نکاح خواں نے کتنا مہر بیان کیا لیکن مجھے یہی لگا کہ انہوں نے پچاس ہزار روپے کہا۔ پھر  جب ہم نے بات کی تو تعلقات خراب ہوگئے، لڑکی نے بعد میں بتایا کہ اس کی شادی زبردستی کی گئی ہے، لڑکی  سسرال میں بمشکل 6ماہ یا زیادہ رہی ہوگی اور اس دوران لڑکے نے تنگ ہو کر ایک طلاق بھی دے دی کیونکہ لڑکی ہر وقت طلاق مانگتی تھی، طلاق کو تقریباً 9ماہ ہوچکے ہیں، اب لڑکا بیرون ملک ہے۔   لڑکی کا وکیل جو لڑکی کا حقیقی چچا بھی تھا اُس نے کوشش کی لیکن 7/6ماہ کے اندر اس کی وفات ہوگئی۔ میں نے 50000/=روپے تو  قبول کر لیے کیونکہ وکیل دلہن وفات پاگئے تھے۔ مجھے معلوم بھی نہیں ہے کہ حق مہر کتنا معجل ہے اور کتنا غیر معجل ہے کیونکہ ہم نے نکاح نامہ تسلیم نہیں کیا ہے، اس لیے وصول بھی نہیں کیا ہے،میں نے  بڑی کوشش کی ہے کہ یہ معاملہ حل ہوجائے لیکن اس میں بڑی رکاوٹ، لڑکی ، اس کا بھائی اور والدہ ہیں، لڑکی کا والد جو میرا ماموں بھی ہے، اُس کی بات تو وہ سنتے بھی نہیں ہیں، اس لیے اُس نے مجھ سے معذرت کرلی ہے، خاندان میں وہ سب سے بڑا ہے۔ یہ مسائل ہیں، اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے فتوی جاری فرمائیں کہ لڑکے کے ذمے کتنا حق مہر واجب الادا ہے؟  اور جو چیزیں لڑکی والوں اور نکاح خواں نے دھوکے سے  نکاح نامے میں شامل کی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

نوٹ: لڑکی کے والد اور نکاح خواں سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا، اس لیے مشروط جواب لکھا گیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا نکاح خواں نے ایجاب و قبول کرواتے وقت 50000 (پچاس ہزار روپے) مہر  بیان کیا تھا، اورنکاح نامے پر دستخط کرتے وقت  لڑکے (آپ کے بیٹے) کو معلوم نہیں تھا کہ نکاح نامے میں پچاس ہزار کے علاوہ پانچ تولہ سونا بھی لکھا ہوا ہے تو  لڑکے (آپ کے بیٹے) کے ذمے پچاس ہزار روپے ادا کرنا واجب ہے، پانچ تولہ سونا ادا کرنا واجب نہیں۔

درمختار مع ردالمحتار (222/4) میں ہے:

(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج .

(قوله ويجب الأكثر) أي بالغا ما بلغ فالتقدير بالعشرة لمنع النقصان (قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة او الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved