- فتوی نمبر: 14-256
- تاریخ: 06 جنوری 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نیور سرجن ہوں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مریض کی دماغ کی موت ہو جائے اور صرف قلب کی حرکت جاری ہے تو ایسے مریض کو ventilatorپرڈال دیا جاتا ہے اور بسااوقات ایسے مریض کئی کئی سال ایسے ہی رہتے ہیں جس میں میں نے پوچھنا یہ ہے کہ وارڈ میں بہت سے مریض آتے ہیں جن کو ventilatorکی فوری ضرورت ہوتی ہے اور اگر اس کو یہ سہولت دی جائے تو مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے اور ایسے مریض جو کئی سالوں سے ventilatorپر پڑا ہےاور اس کی برین ڈہتھ ہو چکی ہے تو کیانئے آنے والے مریض کو ventilatorپر ڈال سکتے ہیں ،کیونکہ مریض اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ بیک وقت پرانے مریض جو کئی سالوں سے پڑے ہیں سب کو ٹریٹ نہیں کیا جاسکتا ؟
شرعی لحاظ سے رہنمائی فرمائیے کہ میڈیکل میں برین ڈیتھ کو انسانی موت کہا جاتا ہے مگر جو کئی کئی سالوں سے ventilatorپرہیں اور اگر ایسے مریضوں کو میڈیسن دی جاتی تو بعض اوقات دس دس سال بھی مریض ventilatorپر گذار کر موت ہوجاتی ہے ۔پوچھنے کا مقصد شریعت میں ایک انسان کی موت کب واقع ہوتی ہے ؟آیا ایسے مریضوں کو کس طرح ٹریٹ کیا جائے ؟جب کہ ایسے مریض کی میڈیکل میں ڈیتھ ہوچکی ہوتی ہے اور ایک ہی وقت میں اتنے زیادہ مریضوں کی ٹریٹمنٹ نہیں کی جاسکتی ہے؟ازراہ کرم رہنمائی فرمائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟جب کہ بعض اوقات پرانے مریض کی میڈیسن بند کردیتے ہیں اور صرف سانس لینے کے لیے مشین لگادی جاتی ہیں جب کہ آنے والا نیا مریض زیادہ حقدار ہوتا ہے کیونکہ اس کے بچنے کے زیادہ چانس ہیں ۔فتوی کی صورت میں جواب عنایت فرمائیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ شریعت کی رو سے انسان کی موت تب واقع ہوتی ہے جب اس کے دل کی حرکت مکمل طور پر بند ہو جائے۔ شریعت کی نظر میں دماغی موت سے موت واقع نہیں ہوتی۔
۲۔ جس مریض کے بارے میں ماہر ڈاکٹروں کے ایک بورڈ (جو کم از کم تین ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ہو) کی رائے یہ ہو کہ اب اس مریض کی دماغی موت واقع ہو چکی ہے اور اس کے مزید علاج کا فائدہ نہیں تو ایسے مریض کا علاج بند کر سکتے ہیں۔
الاختيار لتعليل المختار (173/4)میں ہے:
ومن امتنع من أكل الميتة حالة المخمصة، أو صام لم يأكل حتى مات أثم؛ ومن امتنع من التداوي حتى مات لم يأثم
الدر المختار (559/9) میں ہے:
(الأكل) للغذاء والشرب للعطش ولو من حرام أو ميتة أو مال غيره وإن ضمنه (فرض) يثاب عليه
اس کے تحت شامی میں ہے:
قوله: (يثاب عليه إلخ) قال في الشرنبلالية عن الاختيار قال ﷺ: "إن الله ليؤجر في كل شيء حتى اللقمة يرفعها العبد إلى فيه” فإن ترك الأكل والشرب حتى هلك فقد عصى لأن فيه إلقاء النفس إلى التهلكة وإنه منهي عنه في محكم التنزيل اه بخلاف من امتنع عن التداوي حتى مات إذ لا يتيقن بأنه يشفيه كما في الملتقى وشرحه
حضرت مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب دامت برکاتہم کی کتاب’’مریض و معالج کے اسلامی احکام‘‘( ص: ۳۱۷) میں ہے:
کبھی مریض کی ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹروں کی نظر میں مریض کا دماغ اپنا عمل بالکل ترک کر چکا ہوتا ہے لیکن قلب کی حرکت کی وجہ سے اس کو فی الحال مکمل موت کہنا درست نہیں ہے اس وجہ سے اگر دو تین ماہرین کی رائے ہو کہ مریض کا دماغ ناکارہ ہو چکا ہے اور بالفاظ دیگر دماغ کی موت (Brain Death) واقع ہو چکی ہے اور اب مریض کو قلب و تنفس کی مصنوعی حرکت پر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں تو تنفس کی مصنوعی تحریک (Resuscitation) کو بند کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ کرنے میں محض ایک ڈاکٹر کی رائے پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ دو تین ماہرین کی رائے لی جائے۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved