• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دودھ پیتے بچے بچی کے پیشاب کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ابو السمح سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا !لڑکی کے پیشاب سے کپڑا دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب  سے پانی چھڑکا جائے۔

مسائل

۱۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ شیر خوار لڑکے کے پیشاب سے کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیںاور بچی کے پیشاب کو پانی سے دھونا ضروری ہے ۔یہی مذہب امام شافعی ؒ وامام احمد بن حنبل ؒ کا ہے۔

۲۔ ہاں اگر لڑکا کھانا وغیرہ کھاتا ہو تو بھی دھونا ثابت ہے۔(بلوغ المرام رقم الحدیث:33)

اس حدیث کے پیش نظر احناف کا کیا مسلک ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حنفیہ کا مؤقف یہ ہے کہ شیر خوار بچے کے پیشاب سے بھی کپڑے کو دھونا ضروری ہے کیونکہ سائل نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ لڑکے کے پیشاب کو دھویا نہ جائے لہذا مذکورہ حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا غلط ہے کہ شیر خوار لڑکے کے پیشاب سے کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے البتہ اس حدیث میں اتنی بات ضرور ہے کہ شیر خوار لڑکی کے پیشاب سے کپڑے کو دھونے کے لیے’’ غسل ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے اور شیر خوار لڑکے کے پیشاب سے کپڑے کو دھونے کے لیے نضح کا اور بعض روایات میں’’ رش‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔’’رش‘‘ اور’’ نضح ‘‘کا لفظ جس طرح پانی چھڑکنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح دھونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہوتا ہے ۔حدیث میں کون سا معنی مراد ہے خوداس حدیث میں اس کا ذکر نہیں ۔

اب دوہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ چھڑکنے کا معنی مراد لیا جائے اوردھونے کو غیر ضروری قرار دیا جائے اس صورت میں ایک معنی پرعمل نہ ہو گا ار کپڑے کی پاکی میں شک رہے گا۔ دوسرا یہ کہ دھونے کا اور تھوڑا تھوڑا پانی انڈیلنے کا معنی مراد لیا جائے ۔اس صورت میں (یعنی دھونے والا معنی مراد لینے میں )چھڑکنے والے معنی پرخود بخود عمل ہو جائے گا اور کپڑا یقینی طور پر پاک ہو جائے گا۔ حدیث میں شک والی بات کو چھوڑنے کاحکم ہے ۔اس لیے حنفیہ چھڑکنے کا معنی مراد نہیں لیتے بلکہ دھونے کا معنی مراد لیتے ہیں تاکہ شک سے نکل جائیں ۔دھونے کے معنی مراد لینے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں شیر خوار بچے کے پیشاب سے کپڑے کو دھونے کے لیے ’’صب‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے پانی کا انڈیلنا ہے۔

رش :      رشا وترشاشا الماء نفضه وفرقه (چهڑکنا)ولشيء :غسله (دهونا)

نضح (ف،ت)نضحاالبيت بالماء (گهر ميں پاني چهڑکنا)رشه وعليه الماء (کسي چيز پر پاني چهڑکنا)  السماء القوم :برسانا (مصباح اللغات)

وقال الطيبي : النضح يستعمل في الصب شيئا فشيئا وهو المراد هنا قيل لان الرش مع بقاء اثر الدم لايزاد الانجاسة کذا في المرقاة ،فتح الملهم (47/3)

فالمراد بالرش والنضح الغسل الخفيف بغير مبالغة فحمل التوفيق بين الاحاديث ولان النجاسة لا تزول بالنضح ۔(اعلاء السنن409/1)

وايضا فيه 410/1وهذا هو قولنا معشر الحنفية انه يجب غسل بول الغلام کما يجب غسل بول الجارية الا انه لا يبالغ في الاول کما يبالغ في الثاني وهذا هو معني قوله ﷺينضح بول الغلام ويغسل بول الجارية لما ورد في بعض الروايات انما يصب علي بول الغلام مکان ينضح کما سيأتي والصب نوع من الغسل۔۔اعلاء السنن ۔

وفي المسلم287/1

عن عائشةؓ قالت اتي رسول الله ﷺ بصبي فبال في حجره فدعا بماء فصبه عليه۔۔

في السنن الترمذي530/2

عن ابي الحوراء السعدي قال قلت لحسن بن علي ما حفظت من رسول الله ﷺ قال حفظت من رسول اللهﷺ دع ما يريبک الي ما لايريبک فان الصدق طمانية وان الکذب ريبة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved