- فتوی نمبر: 28-15
- تاریخ: 08 اکتوبر 2022
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
اگر ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کا قتل ہوجائے تو جیساکہ آپ کو پتہ ہے ریاست حرکت میں آجاتی ہے ،میرا سوال یہ ہےکہ قتل کرنے والے بندے کو اگر سزائے موت دیدی جائے یا عمر قید کی سزا ہوجائے تو روزِ محشر اس کا کیا حساب ہوگا؟ جب کہ اس انسان نے تو دنیا میں ہی اپنی سزا پوری کرلی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قاتل کے ساتھ ایک حق مقتول کا متعلق ہوتا ہے اور دوسرا حق (قصاص یا دیت کی صورت میں ) مقتول کے ورثاء کا متعلق ہوتا ہے۔ دنیوی سزا سے (جوکہ قصاص یا دیت ہے نہ کہ عمر قید) مقتول کے ورثاء کا حق ختم ہوجاتا ہے خود مقتول کا حق ختم نہیں ہوتا، مقتول کو آخرت میں اپنے حق کے مطالبے کا اختیار ہوگا۔
حاشیہ ابن عابدین(192/10ط:رشیدیہ) میں ہے:
(قوله لا تصح توبة القاتل حتى يسلم نفسه للقود) أي لا تكفيه التوبة وحدها قال في تبيين المحارم: واعلم أن توبة القاتل لا تكون بالاستغفار والندامة فقط بل يتوقف على إرضاء أولياء المقتول فإن كان القتل عمدا لا بد أن يمكنهم من القصاص منه، فإن شاؤا قتلوه، وإن شاؤا عفوا عنه مجانا، فإن عفوا عنه كفته التوبة اهـ ملخصا، وقدمنا آنفا أنه بالعفو عنه يبرأ في الدنيا، وهل يبرأ فيما بينه وبين الله تعالى: هو بمنزلة الدين على رجل فمات الطالب وأبرأته الورثة يبرأ فيما بقي؛ أما في ظلمه المتقدم لا يبرأ فكذا القاتل لا يبرأ عن ظلمه ويبرأ عن القصاص والدية تتارخانية.
أقول؛ والظاهر أن الظلم المتقدم لا يسقط بالتوبة لتعلق حق المقتول به، وأما ظلمه على نفسه بإقدامه على المعصية فيسقط بها تأمل.
وفي الحامدية عن فتاوى الإمام النووي مسألة فيمن قتل مظلوما فاقتص وارثه أو عفا عن الدية أو مجانا هل للقاتل بعد ذلك مطالبة في الآخرة الجواب: ظواهر الشرع تقتضي سقوط المطالبة في الآخرة اهـ، وكذا قال في تبيين المحارم: ظاهر بعض الأحاديث يدل على أنه لا يطالب.
وقال في مختار الفتاوى: القصاص مخلص من حق الأولياء، وأما المقتول فيخاصمه يوم القيامة فإن بالقصاص ما حصل فائدة للمقتول وحقه باق عليه اهـ وهو مؤيد لما استظهرته.
احسن الفتاوی(527/8ط: ایچ ایم سعید) میں ہے:
سوال: ***نے*** کو قتل کردیا ۔اگر*** کے ورثاء کو کچھ رقم دے کر راضی کرلے تو آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا یا نہیں ؟ اگرورثہ رضا مند نہ ہوں اور حکومت*** کو دس سال قید کی سزا دے تو اس سے اس کا گناہ معاف ہو جائے گا یا نہیں؟
جواب: عذابِ آخرت سے بچنے کے لئے توبہ واستغفار اور مقتول کے ورثاء کو راضی کرنا دونو ں امر ضروری ہیں،لہذا صرف قید کی سزا کاٹنے یا صرف ورثاء کو راضی کرنے سے گناہ معاف نہیں ہوگا، توبہ وارضاء ورثاء کے بعد بھی قتیل کا حق اداء نہیں ہوگا، اس کو آخرت میں مطالبہ کا حق ہوگا۔
کفایت المفتی (215/2ط:دارالاشاعت) میں ہے:
سوال: ایک شخص جو ایک مسلمان کو بے گناہ قتل کرنے کے جرم میں ازروئے تعزیرات ہند انگریزی فیصلہ عدالت کے مطابق سات یا دس سال قید بھگت چکا ہو کیا شرعاً بھی اس کے لئے یہی سزا کافی سمجھی جائے گی ۔؟ اور کیا وہ شخص مقتول کے وارثوں کو خون کا معاوضہ دیئے بغیر اس گناہ سے بری الذمہ سمجھا جائے گا اور اگر مذکورہ بالا سزا قاتل کے حق میں شرعی سزا نہ سمجھی جائے اور نہ ہی مقتول کے وارثوں کو خون کا معاوضہ دیا گیا ہو تو ایسی حالت میں وہ شخص ( قاتل ) امامت کے لائق ہے یا نہیں ؟
جواب: اگر درحقیقت یہ شخص قتل کے جرم کا مرتکب ہے تو مقتول کے ورثہ کا حق قصاص کا یا دیت یعنی خون کا معاوضہ مالی ہوگا اور یہ سزا مرقوم کافی نہ ہوگی لہذا یہ شخص جب تک کہ ورثہ کے لئے حق خون کا ادا نہیں کرے گا یامعافی نہیں مانگے گا اور توبہ نہیں کرے گا اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوگی ۔ فقط واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved