- فتوی نمبر: 34-161
- تاریخ: 08 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز جنازہ و میت کے احکام
استفتاء
محترم مفتی صاحب گزارش ہے کہ چند روز قبل ہماری مامی کا انتقال ہوا۔ ہم انہیں اپنے آبائی قبرستان میں دفنانے کے لیے لے گئے۔ وہاں قبرستان انتظامیہ نے بتایا کہ چونکہ جگہ کی شدید قلت ہے، اس لیے وہ صرف اُن لوگوں کو دفناتے ہیں جن کے قریبی رشتہ دار پہلے سے وہاں دفن ہوں۔ ہمارے ماموں (مامی کے شوہر) اسی قبرستان میں دفن ہیں، اور ان کا انتقال ہوئے تقریباً 15 سے 16 سال گزر چکے ہیں۔ چنانچہ قبرستان انتظامیہ نے ان کی قبر کھولی، لیکن ان کی میت کو چھیڑے بغیر انہوں نے قبر پر سلیبیں (پتھر) رکھیں اور ہماری مامی کی میت کو انہی سلیبوں پر رکھ کر اوپر دیواریں بنا کر الگ سے ایک قبر جیسا ڈھانچہ تیار کر کے دفنا دیا۔ یعنی ایک ہی جگہ پر دو منزلہ قبر بن گئی ۔نیچے ماموں کی پرانی قبر اور اوپر مامی کی نئی قبراب ہمیں شرعی طور پر ان نکات کی وضاحت درکار ہے:
1۔ کیا اس طرح ایک قبر میں سلیب کے ذریعے تقسیم کر کے، دوسری میت کو اوپر دفنانا شرعاً درست ہے؟
2۔ کیا اسلامی طریقے سے میت کو براہ راست مٹی میں رکھنا ضروری ہے؟
3۔ جب نیچے کی قبر میں میت کو چھیڑا نہیں گیا اور عرصہ بھی 16-15 سال گزر چکا ہے، تو کیا یہ عمل قابل قبول ہے؟
4۔اگر یہ طریقہ غیر شرعی یا مکروہ ہو تو کیا مامی کی میت کو دوبارہ نکال کر کسی اور جگہ دفنانا لازم یا واجب ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: 1۔سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟ 2۔اصل وارثین سوال کیوں نہیں کررہے؟
جواب وضاحت: یہ مسئلہ میرے سامنے آیا تھا اپنی معلومات کے لیے پوچھ رہا ہوں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
4,3,2,1۔ بغیر مجبوری کے مذکورہ صورت اختیار کرنا جائز نہیں۔ مجبوری ہو تو گنجائش ہے تاہم جب مجبوری یا بغیر مجبوری کے کسی میت کو مذکورہ طریقے پر دفنا دیا گیا تو اب اسے نکال کر کسی اور جگہ دفنانا درست نہیں۔
شامی (3/163) میں ہے:
(قوله وحفر قبره إلخ) شروع في مسائل الدفن. وهو فرض كفاية إن أمكن إجماعا حلية. واحترز بالإمكان عما إذا لم يمكن كما لو مات في سفينة كما يأتي. ومفاده أنه لا يجزئ دفنه على وجه الأرض ببناء عليه كما ذكره الشافعية، ولم أره لأئمتنا صريحا، وأشار بإفراد الضمير إلى ما تقدم من أنه لا يدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح، ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي اهـ وهي كبيت معقود بالبناء يسع جماعة قياما لمخالفتها السنة إمداد. والكراهة فيها من وجوه: عدم اللحد، ودفن الجماعة في قبر واحد بلا ضرورة، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها بحر. قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ
قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول ترابا لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جدا وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكما عاما لكل أحد فتأمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved