- فتوی نمبر: 3-312
- تاریخ: 12 جون 2010
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
***نے مکہ میں ایک قطعہ زمین کا خریدا ہے اور اس پر فلیٹس تعمیر کرنا چاہتا ہے۔*** ان فلیٹس کو کرایہ پر لینے کے خواہشمند لوگوں سے پانچ سال کا انڈوانس کرایہ اجارہ کا ایگریمنٹ کر کے وصول کرے گا۔ جس کی صورت یہ ہے کہ 25 فیصد کرایہ ایگریمنٹ کے وقت اور 25 فیصد تین ماہ بعد پھر 25 فیصد تین ماہ بعد۔ اس طرح عمارت کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل مکمل کرایہ وصول کرے گا اور ایک سال کے بعد قبضہ دینے کا پابند ہوگا۔ کیا زید کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔ اگر نا جائز ہے تو کوئی متبادل جائز صورت تحریر فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں زید کے لیے اس طرح سے فلیٹ کرایہ پر دینا جائز نہیں۔
و أما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع، منها أن يكون موجوداً فلا ينعقد بيع المعدوم. ( البدائع، 326/ 4 )
و في الدر: البيع هو لغة مقابلة شيء بشيء مالا. وقال الشامي تحت قوله: هو لغة مقابلة شيء بشيء أو ظاهره شمول الإجارة لأن المنفعة شيء باعتبار الشرع أنها موجودة حتى صح الاعتياض عنها بالمال. (3/ 4 )
و لو آجر داراً أو عقاراً قبل القبض من البائع أو غيره لايجوز عند الكل كذا في فتاوى قاضي خان. (هنديه، 14/ 3 )
و من شرائط الانعقاد قيام المعقود عليه … فإذا آجر الفضولي وأجاز المالك بعد استيفاء المنفعة لم تجز إجارته و كانت الأجرة للعاقد لأن المنافع المعقود عليه قد انعدمت. ( هنديه، 411/ 3 ).
© Copyright 2024, All Rights Reserved