• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

گاڑی میں شرکت کی صورت

استفتاء

1۔بقول قاری صاحب کے انہوں نے 20/8/ 18کومجھ سے مشورہ کرتے ہوئے یہ بات پوچھی کہ میں گاڑی خریدرہا ہوں اس کے 3ٹوکن شارٹ (کم)ہیں،قیمت 880000روپے ہے میں نے رائے دی کہ لے لیں بہت اچھی قیمت میں گاڑی مل رہی ہے ۔انہوں نے گاڑی خریدلی قیمت مکمل مہیا نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سے تقریبا 15000روپےقرض بھی لیا ۔ تقریبا دو ہفتہ گاڑی چلاتے رہے ،میں نے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے گاڑی فروخت کرنے کاارادہ کرلیا ایک صاحب نے انکو 9لاکھ روپے لگائے میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ گاڑی آپ مجھے فروخت کردیں انہوں نے مجھ سے سودا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے 9لاکھ دس ہزار تو مل رہے ہیں زیادہ  کی بھی آفر ہے ،میں نے مارکیٹ سے ریٹ لگوائے  بغیر ان کے اعتبار پر ان سے 9لاکھ 15ہزار پر گاڑی خرید لی اورایک تحریر لکھی کہ 870000روپے نقد ادا کردیئے باقی رقم 45000روپے بعد میں لے لیں ۔ چونکہ ان کے پاس گاڑی 15 دن رہی تھی  اس لیے مجھے معلو م نہیں تھا کہ اس نے ٹوکن ادا کردیے ہیں یا نہیں میرے ذہن میں یہی تھا کہ بیچنے والے کے ذمے کاغذات پورے کرکے دینا ہوتا ہے اس لیے کاغذات پورے ہوں گے اور معاملہ کرتے ہوئے کوئی تذکرہ بھی نہیں ہوا کہ ٹوکن کم ہیں اب دوماہ کےبعد گاڑی میں نے آگے فروخت کی اوراس کے کاغذات چیک کیے تو ٹوکن شاٹ ہونے کی وجہ سے 45000روپے کی رقم گاڑی پر بن گئی جبکہ گاڑی کے مکمل کاغذات بلااعتراض  مالک کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پورے کرکے دے اس صورتحال میں میرے سوالات یہ ہیں :

(الف)میرےلیےکیاحکم ہے؟کیاان کے 45000روپےپورے واپس کروں؟

(ب) اورفریش ٹرانسفرڈیڈ(جب گاڑی فروخت  ہوتی ہے ایک ہزار روپے کے اسٹامپ پیپر پر مالک لکھ کر دیتا ہے کہ میں نے یہ گاڑی فلاں کو فروخت کردی ہے اس کی بنیاد پر خریدار وہ گاڑی اپنے نام کرواتا ہے اسے ٹراسفر ڈیڈ کہتے ہیں وہ عرف میں مالک کے ذمے ہوتی ہے ) جومالک کے دستخط کےساتھ خریدار کو دی جاتی ہے اس کے پیسے منہا کرکے دوں؟ (ج)نیز  یہ کہ قاری صاحب کے اعتبار پر میں نے 9لاکھ سے اوپر 15ہزار دیئے حالانکہ میں نے ان صاحب سے پوچھا جنہوں نے 9لاکھ سے اوپر 15ہزار  رقم لگائی تھی ان کا کہنا ہے کہ میں 9لاکھ  سے زیادہ کوئی آفر نہیں دی تو یہ 15ہزار بھی منہاکروں ؟

2۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک ادارہ سے گاڑی 6/ 28کوخریدی انہوں نےمجھ سے سودا طے کرلیا لیکن یہ کہا  کہ گاڑی 7/7کو ملے گی کاغذات مکمل دینا چونکہ مالک کی ذمہ داری ہے اس لیے اگر 6/28کو گاڑی حوالہ کردیتے تو کوئی ٹوکن کم نہ ہوتا جولائی شروع ہوتے ہی ایک ٹوکن لازم  ہوگیا میں نے ایک ٹوکن کے پیسے اورمالک کی طرف سے ٹرانسفرڈیڈ منگوانے کا 1000روپے لیا ہے اوراگلے خریدار کو ضابطہ کے مطابق ٹوکن رعایت بھی کروائی ہے کچھ نئے گاہک کے لیے کم کروانے کی گنجائش ہوتی ہے   نیز ٹرانسفر ڈید بھی  میں نے ادارے سے ابھی بنوائی نہیں  ہے اور نہ فی الحال اگلے گاہک  نے مجھ سے مانگی ہے بعض دفعہ گاہک خود ہی بنوا لیتا ہے  تو کیا میرے لیے ادارے سے لیے ہوئی مذکورہ رقم لینا جائز ہے یا  واپس کرنا ہو گی؟

نوٹ: مذکورہ صورت میں چونکہ گاڑی کے کاغذات گاڑی ملنے کے ساتھ ملے تھے اس لیے میں گاڑی ملنے سے پہلے ٹوکن ادا نہیں کرسکتا تھا

قاری آصف صاحب کا بیان:

گاڑی کی خرید و فروخت بمع  مفتی زکریا صاحب بلال مسجد والے

میں آصف  06/6/2020  کو گاڑی لینے لگا  تو وہ گاڑی میں نے مفتی زکریا صاحب کو دکھائی انہوں نے کہا کہ گاڑی اچھی ہے آپ لے لو   میں نے بتایا مفتی صاحب گاڑی کے تین ٹوکن شارٹ ہیں اور گاڑی 880000/ کی مل رہی ہے اور میں نے لے لی اور مفتی صاحب نے کہا جب سیل کرنی ہو آپ مجھے دینا،23/06/2020  یعنی پندرہ دن کے بعد میں نے کہا کہ گاڑی سیل کرنی ہے میں نے گاڑی خرید  کر اس کے نئے ٹائر ڈلوائے  بریک شو اور چھت پر پیپر لگوایا ہے  یوں گاڑی مجھے9لاکھ 5  ہزار کی پڑی   ایک اور ساتھی نے  نو لاکھ دس ہزار اس کی قیمت  لگائی  مفتی صاحب نے کہا کہ مجھے نو لاکھ پندرہ ہزار کی دے دو میں نے کہا ٹھیک ہے انہوں نے مجھے اسی وقت آٹھ لاکھ ستر ہزار ادا کر دیے اور بقیہ 45 ہزار کا کہا کہ کل جب گاڑی آپ کے گھر سے لینے آؤں گا تو  آپ کو دے دوں گا جب گاڑی لینے آئے تو اس وقت میں  نے گاڑی  کے مکمل کاغذات دے دیے  اور بقایاجات 45000  کا کہا تو انہوں نے کہا کہ ایک دن میں آپ کو مل جائیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے جب میں ان سے 45 ہزار مانگتا تو کہتے  کہ  کر دیتا ہوں پھر ایک دن کہا کہ گاڑی سیل کر کے آپ کو مل جائیں گے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے کہ گاڑی سیل کر دی ہے اور مجھے 45000 نہیں دے رہے اب کہتے ہیں جو گاڑی کے ٹوکن شارٹ  تھے وہ اس میں کٹوتی ہوگئے ہیں گاڑی جب میں نے خریدی تھی تب ان کو سب کچھ بتایا تھا اب کہتے ہیں کہ میں بھول گیا تھا مجھے نہیں پتا تھا کہ ٹوکن شاٹ تھے

مجھے محمد آصف کو گاڑی پڑی ہے9 لاکھ 5 ہزار   کی اور میں نے مفتی زکریا صاحب کو نو لاکھ پندرہ ہزار کی سیل کی ہے اور انہوں نے مجھے8 لاکھ 70 ہزار  روپے ادا کیے   انہوں نے جب گاڑی خریدی   اس وقت  کی ان کے ہاتھوں کی تحریر بھی موجود ہے جو ادا کیے ہیں آٹھ لاکھ 70 ہزار روپے اس  کی تحریر اور 45 ہزار بقایا جات کی تحریر بھی موجود ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)  (الف)مذکورہ صورت میں مفتی زکریا صاحب کے  ذمے ہے کہ وہ 45 ہزار روپے قاری صاحب کو واپس کریں

توجیہ:  مذکورہ  صورت میں جب   مفتی زکریا صاحب  کو ایک دفعہ پہلے عیب کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا کہ اس گاڑی کے ٹوکن شارٹ  ہیں تو ان کی ذمہ داری تھی وہ اس گاڑی کو خریدتے ہوئے اس کے بارے میں معلوم کرتے کہ وہ ٹوکن ادا ہوچکے ہیں یا نہیں  نیز دو ہفتہ  مارکیٹ کے لوگوں کے مطابق  ایسی مدت بھی نہیں کہ جس میں یہ سمجھا جائے کہ خریدار نے وہ ٹوکن ادا کردیے ہوں گے  کیونکہ کرونا کی وجہ سے ٹوکن کی ادائیگی   وغیرہ ویسے بھی مشکل تھی  اور سائل اسی فیلڈ کے کاروباری بھی ہیں اس لیے صرف اتنی بات کہ عقد کے وقت ٹوکن کے کم ہونے کا تذکرہ نہیں ہوا تھا یا یہ کہنا کہ میرے خیال میں ٹوکن ادا ہوچکے ہوں گے کافی نہیں بلکہ مذکورہ صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ سائل کو چونکہ پہلے ایک دفعہ اس عیب کا علم ہوچکا تھا اس لیے اس کا خریدنا اس عیب پر رضامندی تھا ۔   نیز مذکورہ صورت میں بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ سائل کو اس عیب کا علم نہیں تھا تب  بھی اگر خریدار خریدی ہوئی چیز کو آگے بیچ دے اور پھر اسے عیب کے بارے میں علم ہو تو  وہ اپنے بائع سے رجوع بالنقصان نہیں کر سکتا ۔

(ب) ٹرانسفر ڈیڈ چونکہ عرف میں بیچنے والے کے ذمے ہوتی ہے اس لیےاگر اس کو  آپ نے بنوا یا ہے تو اس کا خرچہ آپ قاری صاحب کے پیسوں میں سے کاٹ سکتے ہیں

(ج) مذکورہ صورت میں  مفتی زکریا صاحب کے بیان کے مطابق اگرچہ قاری صاحب نے قیمت کے بارے میں غلط بیانی کی تھی لیکن اس کےباوجودسائل کو خیار مغبون حاصل نہیں ہوگا کیونکہ خیار مغبون اس وقت حاصل ہوتا ہے جب غبن فاحش ہو اور عروض (سامان ) میں غبن فاحش اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ اس کی مارکیٹ ویلیو کے بیسویں حصے سے زیادہ ہو جو مذکورہ صورت میں گاڑی کی قیمت 9 لاکھ شمار کریں تو 45 ہزار بنتا ہے جبکہ مذکورہ صورت میں غبن صرف 15 ہزار کا ہےاس لیےآپ وہ رقم اس کے پیسوں سے کم نہیں کرسکتے البتہ قاری صاحب کو غلط بیانی کا گناہ ہوگا جبکہ واقعی معاملہ ایسا ہی ہوا ہو اور اگر قاری صاحب اپنے بیان میں سچے ہیں تو گناہ بھی نہیں ہو گا۔

2)  مذکورہ صورت میں چونکہ سودا 28/6 کو ہو چکا تھا  اور گاڑی کی ملکیت سائل کی آچکی تھی اس لیے جولائی شروع ہونے پر لگنے والا ٹوکن بھی اس کی ذمہ داری بنتی ہے ۔قبضہ بعد میں ملنے سے اور اس با ت سے کہ قبضہ سے پہلے وہ ٹوکن جمع نہیں کروایا جاسکتا تھا اس سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ٹوکن کا تعلق ملکیت سے ہوتا ہے کہ جس کی ملکیت ہے وہ ادا کرے گا نیز فورا جمع کروانا بھی ضروری نہیں ہوتا بعد میں جمع کروایا جاسکتا ہے۔

المجلة (مادۃ 238)

العيب هو ما ينقص ثمن المبيع عند التجار وأرباب الخبرة

المجلة (مادۃ 237 66)

 ما بيع بيعا مطلقا إذا ظهر به عيب قديم يكون المشتري مخيرا إن شاء رده وإن شاء قبله بثمنه المسمى وليس له أن يمسك المبيع ويأخذ ما نقصه العيب وهذا يقال له خيار العيب

بدائع الصنائع (5/ 276)

 وَأَمَّا شَرَائِطُ ثُبُوتِ الْخِيَارِ …..وَمِنْهَا جَهْلُ الْمُشْتَرِي بوجوب ( ( ( بوجود ) ) ) الْعَيْبِ عِنْدَ الْعَقْدِ وَالْقَبْضِ فَإِنْ كان عَالِمًا بِهِ عِنْدَ أَحَدِهِمَا فَلَا خِيَارَ له لِأَنَّ الْإِقْدَامَ على الشِّرَاءِ مع الْعِلْمِ بِالْعَيْبِ رِضًا بِهِ دَلَالَةً وَكَذَا إذَا لم يَعْلَمْ عِنْدَ الْعَقْدِ ثُمَّ عَلِمَ بَعْدَهُ قبل الْقَبْضِ لِأَنَّ تَمَامَ الصَّفْقَةِ مُتَعَلِّقٌ بِالْقَبْضِ فَكَانَ الْعِلْمُ عِنْدَ الْقَبْضِ كَالْعِلْمِ عِنْدَ الْعَقْدِ

المبسوط للسرخسي (13/ 100)

قَالَ: وَإِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً فَأَعْتَقَهَا أَوْ دَبَّرَهَا أَوْ وَلَدَتْ لَهُ ثُمَّ وَجَدَ بِهَا عَيْبًا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرُدَّهَا…….أَمَّا إذَا بَاعَهَا ثُمَّ عَلِمَ بِالْعَيْبِ فِيهَا لَمْ يَرْجِعْ بِنُقْصَانِ الْعَيْبِ؛ لِأَنَّهُ لَوْ خَاصَمَ إنَّمَا يُخَاصِمُ فِي عَيْبِ مِلْكِ الْغَيْرِ؛ وَلِأَنَّهُ نَالَ الْعِوَضَ حَيْثُ بَاعَهَا بِصِفَةِ السَّلَامَةِ؛ وَلِأَنَّ الْبَيْعَ وَالتَّسْلِيمَ فِعْلٌ مُضَمَّنٌ فِي مِلْكِ الْغَيْرِ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْقَتْلِ وَالْهِبَةِ،

حاشية ابن عابدين (5/ 20)

ثم اعلم أن البيع ونحوه مانع من الرجوع بالنقصان سواء كان بعد حدوث عيب عندالمشتري أو قبله إلا

إذا كان بعد زيادة كخياطة ونحوها كما يأتي ولذا قال في المحيط ولو أخرج المبيع عن ملكه بحيث لا يبقى لملكه أثر بأن باعه أو وهبه أو أقر به لغيره ثم علم بالعيب لا يرجع بالنقصان

بدائع الصنائع (5/ 289)

وَأَمَّا بَيَانُ ما يَمْنَعُ الرُّجُوعَ بِنُقْصَانِ الْعَيْبِ وما لَا يَمْنَعُ فَالْكَلَامُ في حَقِّ الرُّجُوعِ بِالنُّقْصَانِ في مَوْضِعَيْنِ أَحَدُهُمَا في بَيَانِ شَرَائِطِ ثُبُوتِ حَقِّ الرُّجُوعِ  وَالثَّانِي في بَيَانِ ما يَبْطُلُ بِهِ هذا الْحَقُّ بَعْدَ ثُبُوتِهِ وما لَا يَبْطُلُ۔۔۔۔۔۔۔ وَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ امْتِنَاعُ الرَّدِّ لَا من قِبَلِ الْمُشْتَرِي فَإِنْ كان من قِبَلِهِ لَا يَرْجِعُ بِالنُّقْصَانِ لِأَنَّهُ يَصِيرُ حَابِسًا الْمَبِيعَ بِفِعْلِهِ مُمْسِكًا عن الرَّدِّ وَهَذَا يُوجِبُ بُطْلَانَ الْحَقِّ أَصْلًا وَرَأْسًا۔۔۔۔ وَلَوْ بَاعَهُ الْمُشْتَرِي أو وَهَبَهُ ثُمَّ عَلِمَ بِالْعَيْبِ لم يَرْجِعْ بِالنُّقْصَانِ لِأَنَّ امْتِنَاعَ الرَّدِّ هَهُنَا من قِبَلِ الْمُشْتَرِي لِأَنَّهُ بِالْبَيْعِ صَارَ مُمْسِكًا عن الرَّدِّ لِأَنَّ الْمُشْتَرِيَ قام مَقَامَهُ فَصَارَ مُبْطِلًا لِلرَّدِّ الذي هو الْحَقُّ فَلَا يَرْجِعُ بِشَيْءٍ

الدر المختار مع الشامی (5/ 19)

 كما  لا يرجع ( لو باع المشتري الثوب ) كلهأ او بعضه أو وهبه ( بعد القطع ) لجواز رده مقطوعا لا مخيطا كما أفاده بقوله ( فلو قطعه ) المشتري ( وخاطه أو صبغه ) بأي صبغ كان عيني ( ثم اطلع على عيب رجع بنقصانه ) لامتناع الرد بسبب الزيادة لحق الشرع لحصول الربا حتى لو تراضيا على الرد لا يقضي القاضي به  درر۔۔۔۔۔۔۔ والأصل أن كل موضع للبائع أخذه معيبا لا يرجع بإخراجه عن ملكه وإلا رجع

حاشية ابن عابدين (5/ 20)

 قوله ( لجواز رده مقطوعا لا مخيطا ) يعني أن الرد بعد القطع غير ممتنع برضا البائع فلما باعه المشتري صار حابسا للمبيع بالبيع فلا يرجع بالنقصان لكونه صار مفوتا للرد بخلاف ما لو خاطه قبل العلم بالعيب ثم باعه فإنه لا يبطل الرجوع بالنقصان لأن الخياطة مانعة من الرد كما يأتي فبيعه بعد امتناع الرد لا تأثير له لأنه لم يصر حابسا له بالبيع كما أفاده الزيلعي وغيره والأصل كما في الذخيرة أنه في كل موضع أمكن المشتري رد المبيع القائم في ملكه على البائع برضاه أو بدونه فإذا أزاله عن ملكه ببيع أو شبهة لا يرجع بالنقصان وفي كل موضع لا يمكنه رده على البائع فإذا أزاله عن ملكه يرجع بالنقصان ونحوه في الزيلعي أو لت السويق بسمن أو خبز الدقيق أو غرس أو بنى ( ثم اطلع على عيب رجع بنقصانه ) لامتناع الرد بسبب الزيادة لحق الشرع لحصول الربا حتى لو تراضيا على الرد لا يقضي القاضي به  درر ابن كمال ( كما ) يرجع ( لو باعه ) أي الممتنع رده (في هذه الصور بعد رؤية العيب ) قبل الرضا به صريحا أو دلالة

المجلة (مادة 357)

 إذا غر أحد المتبابعين الآخر وتحقق أن في البيع غبنا فاحشا فللمغبون أن يفسخ البيع حينئذ

المجلة (مادة 164)

الغبن الفاحش على قدر نصف العشر في العروض والعشر في الحيوانات والخمس في العقار أو زيادة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved