• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیر مسلموں کی رسومات تدفین میں استعمال ہونے والا پتھر فروخت کرنا

استفتاء

ہمارے پاس کان کنی کا لائسنس ہے ہم جس جگہ سے پتھر نکالتے ہیں وہاں سے کالا پتھر نکلتا ہے۔ بڑی چٹانیں مناسب پیسوں میں فروخت ہوجاتی ہیں لیکن جو چھوٹے پتھر نکلتے ہیں،  وہ عام طور سے ضائع ہو جاتے ہیں، جسے ہم پھینک دیتے ہیں، لیکن اگر یہ  (چھوٹے) پتھر  ہم  مخصوص انداز میں تراش لیں تو یہ پتھر باہر ایکسپورٹ کیے جاسکتے ہیں  وہاں عام طور پر دو صورتوں میں تراش کر امپورٹ کیا جاسکتا ہے یورپ میں کالے رنگ کے چھوٹے پتھروں  کو قبر کے کتبہ میں استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ ہم ان کو کتبوں کی صورت میں تراش کر باہر بھیجتے ہیں ،اسی طرح جاپان والے  مردہ جلانے کے بعد راکھ کالے (چھوٹے) پتھروں کے برتنوں  میں بھرتے ہیں چنانچہ  ہم ان  پتھروں کو برتنوں کی شکل میں تراش کر انہیں بھیجتے ہیں ۔یہ برتن عام برتن کی طرح ہی ہوتا ہے جو کسی بھی مقصد میں استعمال ہو سکتا ہے لیکن چونکہ قیمتی اور بھاری ہوتا ہے اس لیے عام طور پر راکھ بھرنے میں ہی استعمال ہوتا ہے کیا ہمارے لیے یہ پتھر اس طرح  باہر بھیجنا  جائز ہے؟

نوٹ:  ہمیں ایکسپورٹ کرنے کے لیے کاغذات میں یہ مقاصد ذکر بھی کرنے پڑتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذكوره پتهروں کو برآمد کرنا جائز ہے۔

توجیہ:قبر پر لگنے والا پتھر متمحض للمعصیۃ نہیں ہے البتہ اس پر ناجائز تحریر لکھی جائے تو وہ ناجائز ہے اور مذکورہ صورت میں برآمد کرنے والے کو اس بات کا علم  نہیں ہو تا کہ خریدار اس کتبے پر ناجائز تحریر لکھے گا یا نہیں۔اور جس چیز کے جائز ،ناجائز دونوں استعمال  ممکن ہو  اور بیچنے والے کو معلوم نہ ہو  کہ خریدار اسے گناہ کے کام میں استعمال کرے گا تو اس کی بیع جائز ہے ۔  اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی ایسے شخص کو اسلحہ بیچنا کہ جس کا اہل فتنہ میں سے ہونا معلوم نہ ہو۔

اور جو پتھر مردوں کی راکھ بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس  کے ساتھ معصیت کا تعلق نہیں ہےکیونکہ راکھ بھرنا کوئی معصیت نہیں  بلکہ معصیت تو ان کا مردوں کو جلانا ہے ۔ لہذا اس پتھر کا بیچنا بھی جائز ہے ۔

رہا بائع کا اس کے استعمال کے مقاصد کو ذکر کرنا تو اولاً تو یہ قانونی مجبوری ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے استعمالات میں جائز استعمال بھی ہیں لہذا اس سے بھی بیع ناجائز نہیں ہوگی۔

الهداية شرح البداية (4/ 94) میں ہے:قال ويكره بيع السلاح في أيام الفتنة معناه ممن يعرف أنه من أهل الفتنة لأنه تسبيب إلى المعصية وقد بيناه في السير وإن كان لا يعرف أنه من أهل الفتنة لا بأس بذلك لأنه يحتمل أن لا يستعمله في الفتنة فلا يكره بالشكالجوهرة النيرة (6/ 178) میں ہے:قَوْلُهُ ( وَيُكْرَهُ بَيْعُ السِّلَاحِ فِي أَيَّامِ الْفِتْنَةِ ) مَعْنَاهُ مِمَّنْ يَعْرِفُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْفِتْنَةِ كَالْخَوَارِجِ وَالْبُغَاةِ لِأَنَّ فِي ذَلِكَ مَعُونَةً عَلَيْنَا وَإِنْ كَانَ لَا يَعْرِفُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْفِتْنَةِ فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved