- فتوی نمبر: 34-188
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وقف کا بیان > مساجد کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ چند لوگوں نے اپنی مشترکہ زمین پر مسجد بنانے کا فیصلہ کیا اس جگہ پر جماعت سے نماز ادا کی جس کی صورت یوں ہوئی کہ منتظمین اس جگہ موجود تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا تو اسی جگہ با جماعت نماز ادا کر لی۔ اس زمین پر مسجد کا بورڈ لگایا اور تعمیر کیلئے کھدائی کروائی۔ کھدائی میں ذاتی پیسے کے علاوہ کسی اور دوست نے بھی پیسے دیے اور پھر بعد میں کئی سال کام رکا رہا اور کھدائی ختم کر دی گئی۔ اس دوران ساتھ والی جگہ فروخت کی تو مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کچھ زمین مسجد کی بھی یہ سوچ کر بیچ دی کہ دوسری طرف سے مسجد کی جگہ پوری کر دیں گے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ مسجد کیلئے 21 مرلے جگہ چھوڑی تھی جو کہ تقریباً ڈبہ شکل میں تھی۔ دائیں سائڈ سے کچھ حصہ فروخت ہونے کی وجہ سے اب دو صورتیں باقی ہیں:
(1) پیچھے جگہ موجود ہے جس کو شامل کر کے 21 مرلے جگہ پوری کر دی جائے اس صورت میں لمبائی زیادہ ہو گی چوڑائی کم۔
(2) اس جگہ کو دوسری جگہ سے تبدیل کر دیا جائے جو اس کے ہم پلہ یا اس سے بہتر ہو تاکہ مسجد کا نقشہ اچھا بن سکے۔
ہماری شرعی راہنمائی فرما دیں اللہ آپکو اجر عظیم عطا فرمائیں۔
تنقیح: مسجد کا نقشہ بھی بن چکا تھا اور نقشے کے اعتبار سے جو حصہ خاص مسجد کے لیے تھا اس کا بھی کچھ حصہ بک گیا ہے نیز نماز پڑھتے ہوئے اس فروخت شدہ حصے تک بھی کچھ نمازی گئے تھے یا نہیں اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اول تو حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائے کہ جو جگہ مسجد کے لیے وقف کی تھی اور اب فروخت کی جا چکی ہے اسے کسی طریقے سے واپس حاصل کیا جائے اور اگر اس زمین کو حاصل کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو تو اس کے بقدر جو جگہ وقف شدہ زمین کے ساتھ موجود ہے اسے مسجد میں شامل کر لیا جائے۔
توجیہ: جب واقف ایک زمین کو مسجد بنانے کا کہہ دے اور اس جگہ پر نماز بھی ادا کر لی جائے تو بالاتفاق وہ جگہ مسجد بن جاتی ہے چاہے اس پر تعمیر نہ ہوئی ہو اور اس کا بیچنا شرعا ناجائز ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ موقوفہ زمین پر باجماعت نماز ادا کی جا چکی ہے لہٰذا اس کا بیچنا ناجائز تھا۔ اب اگر کسی طرح وہ زمین واپس مل سکے تو ٹھیک ورنہ مجبوراً اس کی جگہ دوسری زمین کو مسجد میں شامل کر لیا جائے۔
الدر المختار(4/355) میں ہے:
(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و(بقوله جعلته مسجداً) عند الثاني (وشرط محمد) والامام (الصلاة فيه) بجماعة
ہدایہ(2/640) میں ہے:
وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه
فتاویٰ محمودیہ(14/288) میں ہے:
جو زمین وقف کر دی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لیے وقف ہو جاتی ہے، اس کی بیع کا کسی کو اختیار نہیں رہتا، نہ واقف کو نہ متولی کو۔ اگر بیع کر دی جائے تو وہ شرعاً ناقابل نفاذ ہوتی ہے ….. اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ واقف کی نیت پوری نہ ہو سکتی ہو اور زمین موقوفہ پر کسی کا ناجائز قبضہ ہو جائے جس سے وقف ہی باطل اور ضائع ہو جائے تو مجبوراً اس کا معاوضہ قبول کر کے دوسری زمین خرید کر وقف کر دی جائے … الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved