• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گھر میں با جماعت نماز ادا کرنے کی صورت میں اذان کا حکم

استفتاء

گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام ہو اور نماز کا وقت داخل ہو گیا ہو، جماعت شروع ہو گئی اور پانچ یا دس منٹ بعد اذان ہوئی کیا اس طرح نماز درست ہو گئی یا نہیں؟

وضاحت: گھر میں ہی نماز با جماعت کا اہتمام کس وجہ سے کیا گیا؟

جواب وضاحت: مسجد تھوڑی دور ہے۔ لیکن دس منٹ میں بندہ پہنچ جاتا ہے۔ کرونا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر پر اہتمام کیا لیکن اب معمول بن گیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کو چھوڑ کر گھر میں نماز با جماعت کا اہتمام کرنا درست نہیں تا ہم اگر گھر میں  نماز با جماعت کی نوبت آ جائے  تو اس کے لئے یا مسجد کی اذان کا انتظار کیا جائے یا الگ سے اذان دی جائے۔ وقت داخل ہونے کے بعد اذان کے بغیر اگرچہ جماعت ہو جائے گی لیکن خلاف سنت ہو گی۔

فتاوی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی، فصل الاول (طبع جدید: مکتبہ رشیدیہ ،جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 116) میں ہے:

"ولا يكره تركهما لمن يصلي في المصر إذا وجد في المحلة ولا فرق بين الواحد والجماعة هكذا في التبيين والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ترك الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره كذا في التمرتاشي”

رد المحتار  علی الدر المختار، كتاب الصلاة، باب الاذان( طبع: مكتبہ رشیدیہ ،جلد نمبر2 صفحہ نمبر 87)پر ہے:

"(وكره تركهما) معا (لمسافر) ولو منفردا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل ) ولو بجماعة ( وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد ؛ فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه

قال ابن عابدین: ( قوله : إذ أذان الحي يكفيه ) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته ؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم۔۔۔الخ”

ہدایہ ، کتاب الصلاۃ، باب الاذان (طبع: مکتبہ المصباح، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 92)میں ہے:

"فإن صلى في بيته في المصر يصزلي بأذان وإقامة ليكون الأداء على هيئة الجماعة وإن تركهما جاز لقول ابن مسعود رضي الله عنه أذان الحي يكفينا”

مسائل بہشتی زیور(طبع: مجلس نشریات اسلام) جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 149 پر ہے:

"مسئلہ:مقیم کے لیے جب کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے خواہ تنہا یا جماعت سے نماز پڑھے اذان و اقامت مستحب ہے سنت موکدہ نہیں بشرطیکہ محلہ یا گائوں کی مسجد میں اذان اور اقامت ہو چکی ہو۔ اگر اس محلہ وغیرہ میں اذان نہ ہوئی ہو تو گھر میں یا تنہانماز پڑھنے والے کو اذان اور اقامت چھوڑنا مکروہ ہے”

فتاوی محمودیہ(طبع: جامعہ فاروقیہ ، کراچی) جلد نمبر 6صفحہ نمبر 417پر ہے:

الجواب حامدا و مصلیا: مسجد قریب موجود ہو اور پھر وہاں کی جماعت بلا عذر ترک کر کے مکان پر کوئی شخص اپنی نماز پڑھ لے تو اگرچہ فریضہ ادا ہو جاتا ہے مگر یہ بہت بڑی محرومی ہے، حدیث پاک میں ہے "لا صلوۃ لجار المسجد الا فی المسجد”اگر مسجد جا کر معلوم ہوا کہ جماعت ہو چکی ہے تو اپنے مکان پر اہل و عیال کو لے کر جماعت کر لی جائے، مسجد کی جماعت کا مستقلا ترک کرنا گناہ ہے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved