- تاریخ: 08 جون 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > غیر متعلقہ فتاوی
استفتاء
محترم مفتی صاحب مذکورہ مسئلے میں بہت دشواری ہے، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ اس کا کوئی حل ہمیں عنایت فرمائیں، کیونکہ ہمارے علاقہ میں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں لیکن میں اس مسئلہ میں بہت تردد کی وجہ سے کسی کو بتا نہیں سکتا، کیونکہ ہمارے علماء نیچے منسلکہ دار العلوم نظامیہ کے فتویٰ کے مطابق عمل کرتے ہیں، جس میں عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے، لیکن پنجاب یا کراچی وغیرہ کا فتویٰ اس سے مختلف ہے جیسا کہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد نے ایک رائے لکھی ہے، اس فتویٰ کو دیکھ کر دار العلوم نظامیہ والوں نے یہ فتویٰ لکھا ہے، لیکن بعض لو جس کو پنجاب میں فیصلے کا فائدہ نظر آ رہا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے پنجاب میں فیصلہ کرانا ہے اور اگر وزیرستان میں میں فائدہ زیادہ ہو تو وہ وہاں فیصلہ کراتے ہیں۔ اور پنجاب والوں کو حالات سے نا واقفیت کی وجہ سے فتویٰ تو بالکل درست دیتے ہیں، لیکن جب وہاں حالات کو دیکھ کر اس پنجاب والے فتوے کو بنیاد بنا کر اگر کہیں پر فیصلہ کیا جائے تو وزیرستان میں ایک فساد برپا ہو جائے گا، قتل و قتال تک نوبت پہنچ جائی گی، جس کا وہاں کے علماء کو ادراک ہے اور وہاں نہ کوئی عدالت ہے نہ حکومتی قانون، بس جرگہ اور علماء سارے مسائل حل کرتے ہیں، اس وجہ سے مفتی صاحب نیچے جامعہ فریدیہ کی رائے اور دار العلوم نظامیہ کے فتوے کو دیکھ کر مسئلے کو شریعت کے مطابق حل کریں تاکہ آئندہ مجھ سے بھی مسئلہ کو حل کرانا چاہے تو میں اس کے مطابق فیصلہ کروں، کیونکہ لوگ بھی اس بارے میں مجھے سے پوچھتے ہیں اور میں خاموش رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ فقہ کی بعض عبارات کی وجہ سے مجھے تردد ہو رہا ہے۔ وہ عبارات درجہ ذیل ہیں:
1۔ في الأشباه و النظائر: حكم ما إذا تعارض ضرران أو مفسدتان الرابعة: نشأت من هذه القاعدة قاعدة رابعة و هي ما إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضرراً بارتكاب أخفهما. (79، ط دار الباز مكة، القاعدة الخامسة الضرر يزال)
و في أيضاً: درأ المفاسد أولی من جلب المصالح الخامسة. و نظير القاعدة الرابعة قاعدة خامسة و هي درء المفاسد أولی من جلب المصالح. فإذا تعارضت مفسدة و مصلحة قدم دفع المفسدة غالباً لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتنائه بالمأمورات. (90، أيضاً)
اس مسئلہ کو اگر وزیرستان کے عرف پر حل نہ کیا جائے تو قتل و قتال تک نوبت یقینی امر ہے صرف امر موہوم نہیں، جس طرح کہ ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں اور جہاں پر وزیرستان کے عرف کے خلاف فیصلہ ہوا اس میں تقریباً لڑائی تک نوبت پہنچتی ہے، ہاں اگر کہیں پر وزیرستان کا عرف نص قطعی وغیرہ کے ساتھ متصادم ہو تو علماء اس کا اعتبار نہیں کرے، تو کیا یہاں اس عرف کا اعتبار کر سکتے ہیں؟
2۔ فيه أيضاً: و الحاصل أن المذهب عدم اعتبار العرف الخاص و لكن أفتی كثير من المشائخ باعتباره فأقول علی اعتباره ينبغي أن يفتی بأن ما يقع في بعض أسواق القاهرة من خلو الحوانيت لازم و يصير الخلو في الحانوت حقاً له. فلا يملك صاحب الحانوت إخراجه منها و لا إجارتها لغيره و لو كانت وقفاً و قد وقع في حوانيت الجملون بالغورية أن السلطان الغوري لما يناها أسكنها للتجار بالخلو و جعل لكل حانوت قسراً أخذه منهم و كتب ذلك بمكتوب الوقف و كذا أقول علی اعتبار العرف الخاص: قد تعارف الفقهاء القاهرة النزول عن الوظائف بما يعطي لصاحبها و تعارفوا ذلك. فينبغي الجواز و إنه لو نزل له و قبض منه المبلغ ثم أراد الرجوع عليه لا يملك ذلك و لا حول و لا قوة إلا بالله العلي العظيم. (الأشباه و النظائر:103)
اس عبارت میں مفتیٰ بہ تو عرف خاص کا اعتبار نہ کرنا ہے، لیکن بعض فقہاء نے اس کا اعتبار کیا ہے۔ تو کیا اس مسئلہ میں اگر وزیرستان کے عرف کا اعتبار کیا جائے تو جائز ہو گا یا نہیں؟
3۔ کیا یہ بھائیوں کے درمیان شرکت فاسدہ کا معاملہ نہیں بنتا؟ کیونکہ سارے کام مثلا شادی بیاہ وغیرہ مشترکہ اموال سے ہوتے ہیں، لیکن بعض کی آمدنی گھر میں خرچ ہوتی ہے اور بعض کی جمع ہوتی ہے۔ لہذا مہربانی فرما کر اس مسئلہ کا حل بتائیں تاکہ میرے جیسے کوتاہ فہم کی اصلاح ہو جائے اور لوگوں کو شریعت کی طرف متوجہ کیا جائے۔
نوٹ: آخر میں ایک گذارش ہے کہ اگر آپ اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکتے یا حل نہیں کرنا چاہتے تو خدارا مہربانی کر کے مجھے اپنا مسئلہ واپس کر دیں تاکہ مجھے اطمینان ہو جائے کہ میرا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور مسئلے کے جواب کا انتظار نہ کروں، اور جتنی جلدی ہو جواب عنایت فرمائیں میں آپ کا مشکور ہوں گا۔
نیچے جامعہ فریدیہ اسلام آباد کی رائے اور دار العلوم نظامیہ شمالی وزیر ستان ایجنسی کا فتویٰ درج ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved