- فتوی نمبر: 333-9
- تاریخ: 01 مارچ 2017
استفتاء
ایک خاتون مریضہ اپنے قریبی عزیز کی وفات پر شدتِ غم سے ایسی کیفیت کا شکار ہو گئیں کہ ان کا حافظہ فوراً اتنا متاثر ہو گیا کہ اپنی بیٹی کو بھی نہ پہچان سکیں۔ فجر کی نماز کے لیے اٹھایا تو بغیر وضو نیت باندھ لی اور عشاء کی نماز پڑھ ڈالی، دن کو رات اور رات کو دن سمجھنا شروع کر دیا۔ اپنی فوت شدہ بہن کے بارے میں پوچھنا شروع کیا تو بتلایا گیا کہ وہ تو وفات پا چکی ہیں۔ نماز قبلہ کے علاوہ دوسرے رُخ پر پڑھنا شروع کر دی۔ گویا کہ ایسی باتیں اور افعال کا مسلسل صدور شروع ہوا کہ ہوش و حواس والا آدمی نہیں کر سکتا اور یہ کیفیت تقریباً 24 گھنٹے جاری رہی، پھر انہوں نے کچھ کچھ پہچاننا شروع کر دیا، ہوتے ہوتے ایک ہفتہ میں افاقہ ہو گیا۔
اسی کیفیت کا صدور پھر دوبارہ ایک اور غم کے موقع پر بعینہ ہوا اور اب ایک بیماری کے دوران ہوا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس حالت میں اگر نماز نہیں پڑھی تو کیا اس کی قضاء ہے؟ نیز جو نمازیں پڑھ لیں شرائطِ صلوٰۃ کا لحاظ کیے بغیر ان کا کیا حکم ہے؟
کچھ عرصے بعد بتدریج طبیعت معمول کی حالت پر آجاتی ہے، مگر انہیں خلاف معمول حالت کے کام اور افعال یاد نہیں رہتے کہ میں نے اس دوران کیا کیا اور کیا نہیں۔ متعلقہ ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ Dementia نام کی بیماری ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں Dementia کی اس مریضہ کا حکم معتوہ جیسا ہے لہذا اگر یہ کیفیت اتنے وقت تک مسلسل رہے کہ اس کیفیت میں چھ یا اس سے زائد نمازیں چھوٹ جائیں تو ان کی قضا واجب نہیں۔ لیکن اگر یہ کیفیت اتنے وقت تک مسلسل نہ رہے مثلاً درمیان میں افاقہ ہوتا رہا تو اس صورت میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا واجب ہے۔
چنانچہ فتاویٰ شامی (4/438) میں ہے:
(والمعتوه) من العته وهو اختلال في العقل. وفي الشامية: هذا ذكره في البحر تعريفاً للجنون وقال: ويدخل فيه المعتوه. وأحسن الأقوال في الفرق بينهما أن المعتوه هو القليل الفهم المختلط الكلام الفاسد التدبير، لكن لا يضرب ولا يشتم بخلاف المجنون.
اور فتاویٰ شامی (3/163) میں ہے:
(ولو معتوهاً) …. وفي أصول البستي أنه لا يكلف بأدائها كالصبي العاقل إلا أنه إن زال العته توجه عليه الخطاب بالأداء حالّاً وبقضاء ما مضى بلا حرج، فقد صرح بأنه يقضي القليل دون الكثير وإن لم يكن مخاطباً فيما قبل كالنائم والمعنى عليه دون الصبي إذا بلغ وهو أقرب إلى التحقيق. كذا في شرح المغني للهندي إسماعيل ملخصاً.
اور فتاویٰ شامی (2/687) میں ہے:
(وكثرت الفوائت) بأن زادت على يوم وليلة (سقط القضا عنه).
اور فتاویٰ شامی (2/573) میں ہے:
ومن جن إذا أغمي عليه يوماً وليلةً قضى الخمس وإن زاد وقت صلاة سادسة لا للحرج.
اور فتاویٰ شامی (2/527) میں ہے:
(أو فاتت ست اعتقادية) …. أي لأنه لا تحصل به الكثرة المفضية للسقوط لأنه من تمام وظيفة اليوم والليلة.
جدید طبی مسائل (مؤلفہ مفتی ابو بکر صابر قاسمی و مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی) ص: 227 میں ہے:
’’اگر مریض کو کمزوری اور شدید ضعف کی وجہ سے سکتہ یا بے ہوشی یا دماغی حالت کے درست نہ رہنے کی وجہ سے اتنا فہم و ادراک بھی نہ رہے کہ نماز فرض ہے، اور یہ کیفیت پانچ وقت سے زیادہ تک باقی رہے تو قضا بھی نہیں ہے۔‘‘
© Copyright 2024, All Rights Reserved