• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(۱)حالت احرام میں پن لگانے کاحکم(۲)سرمنڈانے سے پہلے احرام کھولنے کاحکم(۳)دوران طواف نمازیوں کےسامنے سے گزرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

1۔ اگر کسی نے احرام پر اس نیت سے سیفٹی پِن باندھا کہ احرام نہ گر جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ یہ عمل مکروہ تو نہیں؟

2۔ عمرے کے دوران اگر ایک شخص حالت احرام میں طواف اور صفا و مروہ  کی سعی کرنے کے بعد بال منڈانے سے پہلے احرام کھول لیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر کیا جزاء لازم آئے گی؟

3۔ دوران طواف نمازیوں کے سامنے سے گذرنا شرعاً کیسا ہے؟ نمازیوں کی سجدہ کی جگہ سے گذرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر 2 سے متعلق وضاحت مطلوب ہے کہ

احرام کھولنے سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی کیا تفصیل ہے؟

جواب وضاحت:

کپڑے پہن لیے۔سائل: حافظ راشد اسلام

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ احرام پر سیفٹی پِن لگانا مکروہ ہے۔

غنیۃ الناسک: (ص: 90) میں ہے:

و عقد الطيلسان علي عنقه.

معلم الحجاج میں ہے:

’’چادر میں گرہ دیکر گردن پر باندھنا، چادر اور تہبند میں گرہ لگانا یا سوئی اور پن وغیرہ لگانا، تاگے یا رسی سے باندھنا مکروہ ہے۔‘‘

2۔ مذکورہ صورت میں اگر سلے ہوئے کپڑے مسلسل بارہ گھنٹے یا اس سے زیادہ پہنے ہیں تو اس پر ایک دم آئے گا۔

اور اگر بارہ گھنٹوں سے کم لیکن ایک گھنٹہ سے زیادہ پہنے ہیں تو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دینا لازم ہے، اور اگر ایک گھنٹے سے کم پہنے ہیں تو ایک مٹھی گندم صدقہ آئے گا۔

3۔ دوران طواف سجدہ کی جگہ چھوڑ کر نمازی کے سامنے سے گذر سکتے ہیں۔

احسن الفتاویٰ (3/411) میں ہے:

سوال: کیا فرماتے علماء کرام اس مسئلہ میں کہ مسجد حرام میں نمازی کے سامنے سے گذرنا کیا ہے؟ کیا اس کا حکم دوسری مساجد کی طرح ہے یا کہ مختلف ہے؟

الجواب: اس مسئلہ میں مسجد حرام کی کوئی تخصیص نہیں، بلکہ دوسری بڑی مساجد کی طرح اس میں بھی نمازی کے مقام سے دو صفوں کی جگہ چھوڑ کر گذرنا جائز ہے، اس حد کے اندر گذرنا جائز نہیں، مگر طواف کرنے والے موضع سجود چھوڑ کر گذر سکتے ہیں۔

قال في الشامية:

[ تنبيه ] ذكر في حاشية المدني لا يمنع المار داخل الكعبة وخلف المقام وحاشية المطاف ، لما روى أحمد وأبو داود عن { المطلب بن أبي وداعة أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي مما يلي باب بني سهم والناس يمرون بين يديه وليس بينهما سترة } وهو محمول على الطائفين فيما يظهر لأن الطواف صلاة ، فصار كمن بين يديه صفوف من المصلين انتهى ، ومثله في البحر العميق ، وحكاه عز الدين بن جماعة عن مشكلات الآثار للطحاوي ، ونقله المنلا رحمه الله في منسكه الكبير ، ونقله سنان أفندى أيضاً في منسكه ا هـ وسيأتي إن شاء الله تعالى تأييد ذلك في باب الإحرام من كتاب الحج. (رد المحتار: 1/594)

و قال الرافعي رحمه الله: قوله (لا يمنع المار داخل الكعبة إلخ) المرور بين يدي المصلي في موضع سجوده داخل الكعبة لا شك في كراهته و إن وراءه أو خلف المقام أو حاشية المطاف فلا يتوهم فيه الكراهة حيث كان لا في موضع السجود هذا معلوم من كلام المصنف فإن المسجد الكبير و لا حاجة حينئذ إلى حمل الوارد على الطائفين. (التحرير المختار: (1/83)

قلت: حمل الوارد على الطائفين محمول على أن منع المرور غير مختص بموضع السجود بل هو قدر ما يقع بصره على المار لو صلى بخشوع أي رامياً ببصره إلى موضع سجوده.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved