• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

احرام کی حالت میں آئس کریم کھانے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ احرام کی حالت میں آئس کریم، کھانا کیسا ہے؟ جائز  ہے یا نہیں؟ اور جائز نہیں تو پھر اس کے کھا لینے کی صورت میں جنایت کی تفصیل کیا ہو گی؟ کتنی مقدار کھانے پر صدقہ، اور کتنی مقدار پر دم ہو گا؟ جنایت کے اعتبار سے آئس کریم مشروبات میں شامل ہے یا ماکولات میں؟ شریعت کی روشنی میں مکمل تفصیل کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ جواب دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

احرام کی حالت میں آئس کریم کھانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ کیونکہ آئس کریم میں خوشبو ملی ہوئی ہوتی ہے۔ تاہم احرام کی حالت میں آئس کریم کھانے سے کوئی جزاء واجب نہ ہو گی۔ کیونکہ آئس کریم میں جو خوشبو ملی ہوتی ہے وہ آئس کریم کے دیگر اجزاء کے  مقاملہ میں مغلوب ہوتی ہے۔ آئس کریم چونکہ ماکولات (کھانے کی چیزوں) میں شامل ہے اور ماکولات میں اگر خوشبو مغلوب ہو تو ان کے کھانے سے  کوئی جزاء واجب نہیں ہوتی۔ خواہ وہ ماکولات مطبوخ (آگ پر پکی ہوئی) ہوں یا غیر مطبوخ ہوں (یعنی آگ پر پکی ہوئی نہ ہوں)۔

چنانچہ شامی (3/576) میں ہے:

اعلم أن خلط الطيب بغيره على وجوه لأنه إما أن يخلط بطعام مطبوخ أو لا، ففي الأول لا حكم للطيب سواء كان غالباً أم مغلوباً، وفي الثاني الحكم للغلبة إن غلب الطيب وجب الدم ، وإن لم تظهر رائحته كما في الفتح ، وإلا فلا شيء عليه غير أنه إذا وجدت معه الرائحة كره، وإن خلط بمشروب فالحكم فيه للطيب سواء غلب غيره أم لا غير أنه في غلبة الطيب يجب الدم ، وفي غلبة الغير تجب الصدقة إلا أن يشرب مرارا فيجب الدم .

شرح فتح القدير (2/441):

فإن جعله في طعام قد طبخ كالزعفران والأفاويه من الزنجبيل والدارصيني يجعل في الطعام فلا شيء عليه، فعن ابن عمر -رضي الله عنه- أنه كان يأكل السكباج الأصفر وهو محرم وإن لم يطبخ بل خلطه بما يؤكل بلا طبخ كالملح وغيره، فإن كانت رائحته موجودة كره، ولا شيء عليه إذا كان مغلوباً، فإنه كالمستهلك، أما إذا كان غالباً فهو كالزعفران الخالص، لأن اعتبار الغالب عدما عكس الأصول والمعقول فيجب الجزاء وإن لم تظهر رائحته.

فتاویٰ عالمگیری (1/241) میں ہے:

ولو كان الطيب في طعام طبخ وتغير فلا شيء على المحرم في أكله سواء كان توجد رائحته أو لا

كذا في البدائع، وإن خلطه بما يؤكل بلا طبخ فإن كان مغلوباً فلا شيء عليه غير أنه إن وجدت معه الرائحة كره، وإن كان غالباً وجب الجزاء.

غنیۃ الناسک (247) میں ہے:

… وحاصله أنه إذا خلط الطيب بطعام مطبوخ، فالحكم للطعام، لا للطيب، فلا شيء عليه، سواء كان الطيب غالباً أو مغلوباً، وسواء مسته النار أو لا، وسواء يوجد ريحه أو لا، إلا أنه يكره إن وجد ريحه، كما قدمناه، وإن خطله بما يؤكل بلا طبخ، كالزعفران بالملح فالحكم للغالب، فإن كان الغالب طيباً يجب دم إن أكل كثيراً، وإلا فصدقة، وإن لم تظهر رائحته، لأن المناط كثرة الأجزاء لا وجود الرائحة، وإن كان الغالب ملحاً لا شيء عليه، وإن أكله كثيراً غير أنه يكره إن وجد ريحه.

مناسک ملا علی قاری (317) میں ہے:

(وإن خلطه بما يؤكل بلا طبخ، كالزعفران بالملح، فالعبرة بالغلبة) أي بغلبة الأجزاء لا بغلبة اللون (فإن كان الغالب الملح) أي أجزاؤه، لا طعمه ولونه (فلا شيء عليه) أي من الأجزاء (غير أنه إذا كان راحته موجودة كره أكله) لكونه مغلوباً غير مطبوخ، فإنه كالمستهلك، لأنه مطبوخ مستهلك (وإن كان الغالب الطيب) أي أجزاءه أي على أجزاء الملح مثلاً (ففيه الدم) فإنه حينئذ كالزعفران الخالص، لأن اعتبار الغالب عدما عكس الأصول والمعقول، فيجب الجزاء وإن لم يظهر رائحته.

معلم الحجاج (235) میں ہے:

’’اگر بہت سی خوشبو کھائی یعنی اتنی کہ منہ کے اکثر حصہ میں لگ گئی، تو دم واجب ہے، اور اگر تھوڑی کھائی یعنی منہ کے اکثر حصہ میں نہ لگی، تو صدقہ واجب ہے، یہ اس وقت ہے جبکہ خالص خوشبو کھائے، اور اگر کسی کھانے میں ڈال کر پکایا، تو کچھ واجب نہیں، اگرچہ خوشبو کی چیز غالب ہو، اور اگر پکا ہوا کھانا نہ ہو، تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خوشبو کی چیز غالب ہے، تو دم واجب ہے اگرچہ خوشبو بھی نہ آتی ہو، اور اگر مغلوب ہے تو دم یا صدقہ نہیں اگرچہ خوشبو خوب آتی ہو، لیکن مکروہ ہے۔‘‘

فتاویٰ رحیمیہ (8/108) میں ہے:

’’سوال: احرام كی حالت میں پلاؤ، بریانی، زردہ وغیرہ جس میں زعفران، ایسنس وغیرہ خوشبو دار چیزیں ڈال کر پکایا ہو، احرام کی حالت میں ایسی چیز کھانا کیسا ہے؟

الجواب: پلاؤ، بریانی، زردہ وغیرہ پکی ہوئی چیز میں زعفران، الائچی، دار چینی وغیرہ خوشبو دار چیز ڈالی ہو تو ایسی پکی ہوئی چیز کھانا جائز ہے چاہے جتنی مقدار میں خوشبو دار چیز ڈالی گئی ہو، اس کے کھانے سے کچھ واجب نہ ہو گا۔ شامی میں ہے:

اعلم أن خلط الطيب بغيره على وجوه لأنه إما أن يخلط بطعام مطبوخ أو لا، ففي الأول لا حكم للطيب سواء كان غالباً أم مغلوباً، وفي الثاني الحكم للغلبة إن غلب الطيب وجب الدم ، وإن لم تظهر رائحته كما في الفتح ، وإلا فلا شيء عليه غير أنه إذا وجدت معه الرائحة كره، (2/277، باب الجنایات)

 زبدۃ لمناسک میں ہے: مسئلہ: اور جو (خوشبوئیں خود حقیقی کہلاتی ہیں، جیسے مشک عنبر زعفران، اگر) پکے کھانے میں ملا ہوا کھایا (جیسے زردہ پلاؤ وغیرہ میں ملا کر پکاتے ہیں) تو کچھ واجب نہیں، اگرچہ غالب ہوں ، اور جو پکا ہوا نہ ہو یعنی جو طعام پکایا ہی نہیں جاتا، تو اگر خوشبو کی چیز غالب ہے اگرچہ خوشبو نہ دے تو دم واجب ہے، اور جو مغلوب ہو اگرچہ خوشبو خوب دے، تو کچھ نہیں، نہ دم نہ صدقہ، مگر مکروہ ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved