• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امام کے ساتھ رکوع ملنے پر رکعت ملنے کی دلیل

استفتاء

1۔امام رکوع میں تھا اور مقتدی رکوع میں شامل ہوا یعنی مقتدی نے امام کے ساتھ قیام نہیں کیا تو جب امام کے ساتھ قیام نہیں کیا تو رکعت کس دلیل سے مل جاتی ہے ؟ایک غیر مقلد نے مجھے ایسا کرنے پر ٹوکا اور کہا کہ جب آپ کا قیام امام کے ساتھ نہیں ہوا تو رکوع کیسے ہوا ؟اور رکعت کیسے ہوگئی ؟

2۔ جب امام رکوع میں ہو اور مقتدی نماز میں شامل ہو تو کیسے اندازہ ہوگا کہ رکعت مل گئی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونے والے کے لئے رکعت ملنے کی دلیل مندرجہ ذیل احادیث ہیں :

عن ابن مسعود رضى الله عنه قال “من ‌أدرك ‌الرکوع فقد أدرك ” (الاوسط لابن المنذر،4/196)

ترجمہ:عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جس نے امام کو رکوع میں پالیا تو اس نے (اس رکعت کو) پالیا۔

عن ابن عمررضى الله عنهما أنه كان يقول: ” ‌من ‌أدرك ‌الإمام ‌راكعا، فركع قبل أن يرفع الإمام رأسه فقد أدرك تلك الركعة ”      (السنن الکبریٰ للبيهقى،2/128)

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ جو آدمی امام کو رکوع کی حالت میں پالے پھر وہ امام کے (رکوع سے)سر اٹھانے سے پہلے رکوع کرلے تو اس نے اس رکعت کو پالیا ۔

2۔اس کا اندازہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اگر امام نظر آرہاہو تو امام کے رکوع سے کھڑے ہونے سے پہلے مقتدی رکوع میں چلاجائے اور اگر نظر نہ آرہا ہو تو مقتدی امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے سے پہلے پہلے رکوع میں چلاجائے تو اسے رکعت مل گئی۔

حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح(ص:455)میں ہے:

قوله: “‌أو ‌لم ‌يقف ‌بل ‌انحط بمجرد إحرامه فرفع الإمام رأسه” بحيث لم تتحقق مشاركته له فيه فإنه يصح اقتداؤه ولكنه لم يدرك الركعة حيث لم يدركه في جزء من الركوع قبل رفع رأسه منه وقيل إذا شرع في الانحطاط وشرع الإمام في الرفع فقد أدركه في الركوع أضا ويعتد بتلك الركعة ……..والحاصل أنه إذا وصل إلى حد الركوع قبل أن يخرج الإمام من حد الركوع فقد أدرك معه الركعةوإلا فلا كما يفيده أثر ابن عمر(رض).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved