• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“ان شاءاللہ میری طر ف سے میری منکوحہ کو طلاق ہے” کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد طیب ولد حافظ عطاء اللہ نے اپنی  منکوحہ (بنت ****) کو  موبائل فون پر کال کرکے  یہ الفاظ بڑی شدت سے کہے کہ “ان شاء اللہ میری طرف سے میری منکوحہ (بنت ****) کو طلاق ہے، طلاق ہے،طلاق ہے” براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں کہ ان الفاظ کی ادائیگی سے طلاق کا وقوع یقینی ہے یا نکاح برقرار ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: میاں بیوی کا رابطہ نمبر ارسال  کریں۔

جواب وضاحت: شوہر کا رابطہ نمبر:******،

شوہر کا بیان:

دارالافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مندرجہ ذیل بیان دیا:

“مذکورہ صورتحال ایسے ہی ہے جیسا کہ سوال میں بیان ہوئی، میں نے ان شاء اللہ کے ساتھ یہ الفاظ بولے تھے” [رابطہ کنندہ: ****]

نوٹ: بیوی کا مؤقف معلوم کرنے کے لیے شوہر سے بیوی کا رابطہ نمبر مانگاگیا تو اس نے یہ جواب دیا  کہ ” بیوی سے رابطہ ہونا ممکن نہیں کیونکہ میں آرمی میں جاب کرتا ہوں لہٰذا آپ اسی کے مطابق جواب دیدیں” لہٰذا اگر بیوی کا بیان اس سے مختلف ہوا تو یہ جواب کالعدم ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  اگر واقعتا شوہر   نے طلاق کے الفاظ اسی طرح کہے تھے جس طرح سوال میں مذکور ہیں  تو ان الفاظ سے   کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اورسابقہ نکاح برقرار ہے ۔

توجیہ مذکورہ صورت میں جب شوہر  نے بیوی سے کہا ” ان شاء اللہ میری طرف سے  میری منکوحہ (بنت ***) کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے”  تو تینوں طلاقیں اللہ تعالی کی مشیت  پر معلق ہوگئی تھیں اور چونکہ اللہ تعالی کی مشیت معلوم ہونا ممکن نہیں  لہذا ایسی شرط لگانے سے کوئی طلاق واقع  نہ  ہوگی  اور سابقہ  نکاح  برقرار رہے گا۔ نیز مذکورہ صورت میں اگرچہ طلاق کا تکرار بغیر حرف عطف کے  ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ صرف پہلی طلاق اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہونے کی وجہ سے واقع نہ ہو اور  باقی دو طلاقیں واقع ہوجائیں  لیکن چونکہ اردو محاورات میں ایسی صورت میں عطف کا قصد ہوتا ہے اس لیے تینوں طلاقیں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہونے کی وجہ سے واقع نہ ہوں گی۔

ہدایہ (2/321) میں ہے :

 وإذا قال الرجل لامرأته أنت طالق إن شاء الله تعالى متصلا لم يقع الطلاق ” لقوله عليه الصلاة والسلام ” من حلف بطلاق أو عتاق وقال إن شاء الله تعالى متصلا به فلا حنث عليه”

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (3/ 138) میں ہے:

«وإن علق بشرط فإما أن قدم الشرط على الجزاء وإما أن أخره عنه فإن قدمه بأن قال: إن دخلت الدار فأنت طالق وطالق وطالق، تعلق الكل بالشرط بالإجماع حتى ‌لا ‌يقع ‌شيء ‌قبل ‌دخول ‌الدار، فإذا دخلت الدار قبل الدخول بها لا يقع إلا واحدة في قول أبي حنيفة، وإن دخلت الدار قبل الدخول بها فيقع الثلاث بالإجماع»

امداد الفتاوی (5/233) میں  ہے :

اُردو کے محاورات میں عام اہل لسان اس صورت [اگر فلاں کام کرے تو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے ] میں عطف ہی کا قصد کرتے ہیں۔

فتاوی محمودیہ (13/26)   میں  ہے :

سوال :- زید اپنی والدہ کے کہنے سے والدین کے مکان کی مرمت کرارہا تھا، اسی اثناء میں کسی بات پر اسکی ماں اسی مرمت کے متعلق خفا ہوگئی اس پر اس نے غصہ میں یوں کہا کہ اگر اب میں مرمت کے کام پر کھڑا ہوں تو میری بیوی کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے …… استفساراً گذارش ہے، کہ اس صورت میں طلاق تو واقع نہیں ہوئی؟

 الجواب :اگر اب میں مرمت کے کام پر کھڑا ہوں تو میری بیوی پر طلاق ہے ، طلاق ہے طلاق ہے، کے معنی عرفایہ سمجھے جاتے ہیں، کہ اگرمیں اب سے کھڑا ہوں اور اس میں آئندہ کے لئے کوئی ایک ہفتہ یادوہفتہ کی تحدید نہیں نیز جس کام پر کھڑا ہونے کے لئے عہد کیا اور طلاق کا حلف کیا ہے اسی کام پر بعد میں کھڑا ہوا ہے، لہٰذا وقوع طلاق کی شرط متحقق ہوگئی اورچوں کہ اس شرط پر تین طلاق کو معلق کیا، لہٰذا وقوع شرط کے بعد میں طلاق واقع ہو کر مغلظہ ہوگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved