• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عشاء کے وقت کے بارے میں صاحبین رحمہما اللہ کے قول کو اختیار کرنا اور اس کے مطابق نقشہ تیار کرنا

استفتاء

کیا عشاء کے وقت کے بارے میں صاحبین رحمہما اللہ  کا مسلک مستقل مفتی بہ مذہب ہے، یا صرف قضاء نمازوں میں حرج اور ضرر سے بچنے کیلئے صاحبین رحمہ اللہ کا قول اختیار کیا گیا ہے، اور آئنده نمازوں کیلئے حکم کیا ہے، اور کیا غروب شفق احمر پر عوام الناس کیلئے نقشۂ صلوٰۃ تیار کیا جاسکتا ہے…؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عشاء کے وقت کے بارے میں صاحبین رحمہما اللہ کا قول بھی مفتیٰ بہ ہے اور امام صاحب رحمہ اللہ کا قول بھی مفتیٰ بہ ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فثبت أن قول الإمام هو الأصح و مشى عليه في البحر مؤيدا له بما قدمناه عنه من أنه لا يعدل عن قول الإمام إلا لضرورة من ضعف دليل أو تعامل بخلافه كالمزارعة لكن تعامل الناس اليوم في عامة البلاد على قولهما و قد أيده في النهر تبعاً للنقاية و الوقاية و الدرر و الإصلاح و درر البحار و الإمداد و المواهب و شرحه البرهان و غيرهم مصرحين بأن عليه الفتوى. (2/ 23)

ایسی صورت حال میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عام حالات میں نماز مغرب غروب شفق احمر سے پہلے پڑھ لی جائے اور نماز عشاء غروب شفق ابیض کے بعد پڑھی جائے اور اسی پر اکابر علمائے دیوبند رحمہم اللہ کا عام طور سے عمل ہے۔ البتہ عذر کی صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ اس تفصیل کے پیش نظر احتیاط تو یہی ہے کہ نماز عشاء کے بارے میں صاحبین رحمہما اللہ کے قول پر عمل ضرورت کے موقعہ پر ہی کیا جائے اور اسے عام معمول نہ بنایا جائے۔ تاہم چونکہ مسئلہ اختلافی ہے اس لیے اگر کوئی شخص بغیر عذر کے بھی نماز عشاء غروب شفق احمر کے بعد اور غروب شفق ابیض سے پہلے پڑھتا ہے یا پڑھنے کو معمول بناتا ہے تو اسے پیار محبت سے سمجھا تو سکتے ہیں لیکن اس کے اس عمل کو طعن و تشنیع یا جھگڑے کی بنیاد نہیں بنا سکتے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

و في السراج: قولهما أوسع و قوله أحوط. (2/ 23)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved