- فتوی نمبر: 30-97
- تاریخ: 03 اگست 2023
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
- کیا اشراق گھر ادا کرنے سے بھی حج وعمرہ کا ثواب ملے گا یا مسجد شرط ہے؟
- اگر کوئی شخص مسجد میں نماز ادا کرکے گھر چلا جائے اورقرآن پاک کی تلاوت کرے پھر اشراق ادا کرے تو مسجد میں اشراق ادا کرنے والا اور گھر میں ادا کرنے والا برابر ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
احادیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ثواب کے لیے مسجد شرط ہے (بشرطیکہ گھر میں نماز فجر پڑھنے کا کوئی عذر نہ ہو) اور مسجد میں بھی جس جگہ نماز پڑھی ہے اسی جگہ بیٹھے رہنا اور ذکر واذکار میں مشغول رہنا شرط ہے اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ اسی پر عمل کیا جائے باقی بعض اہل علم حضرات نے اس کی بھی گنجائش دی ہے کہ اگر مسجد میں رہتے ہوئے کسی دینی مشغولی کی وجہ سے اپنی نماز کی جگہ سے اٹھ جائے یا کسی وجہ سے اپنے گھر چلا جائے اور اشراق تک ذکر واذکار میں مشغول رہے تو اسے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
المعجم للطبرانی(5/ 375)میں ہے:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي قال: ثنا محمد بن عمر الهياجي قال: نا الفضل بن موفق قال: نا مالك بن مغول، عن نافع، عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا صلى الفجر لم يقم من مجلسه حتى تمكنه الصلاة» ، وقال: «من صلى الصبح، ثم جلس في مجلسه حتى تمكنه الصلاة، كانت بمنزلة عمرة وحجة متقبلتين لم يرو هذا الحديث عن مالك بن مغول إلا الفضل بن موفق ".
مسند سراج لمحمد بن اسحاق الثقفی المتوفیٰ 313ھ (ص:391)میں ہے:
عن نافع عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الفجر لم يقم من مجلسه حتى تمكنه الصلاة وقال: "من صلى الصبح ثم جلس في مجلسه حتى تمكنه الصلاة كان منزله بحجة وعمرة متقبلتين”.
شرح المصابیح لابن الملک (2/ 51)میں ہے:
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة” قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "تامة تامة”.
"وعن أنس أنه قال: قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم: من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين” أي: بعد أن تطلع الشمس قدر رمح وهذه الصلاة تسمى صلاة الإشراق كانت له كأجر حجة وعمرة” قال أي الراوي:قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم:” تامة تامة”: صفة (لحجة وعمرة) والتكرار للتأكيد.
مرقاۃ المفاتیح (2/ 770)میں ہے:
عن أنس (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من صلى الفجر في جماعة، ثم قعد يذر الله) أي: استمر في مكانه ومسجده الذي صلى فيه، فلا ينافيه القيام لطواف أو لطلب علم أو مجلس وعظ في المسجد، بل وكذا لو رجع إلى بيته واستمر على الذكر ( وحتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين) قال الطيبي: أي ثم صلى بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتى يخرج وقت الكراهة، وهذه الصلاة تسمى صلاة الإشراق وهي أول الضحى ( كانت ) أي المثوبة، وأبعد ابن حجر فقال: أي هذه الحالة المركبة من تلك الأوصاف كلها ( له كأجر حجة وعمرة قال) أي: أنس (قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة ) : صفة لحجة وعمرة كررها ثلاثا للتأكيد، وقيل: أعاد القول لئلا يتوهم أن التأكيد بالتمام وتكراره من قول أنس، قال الطيبي: هذا التشبيه من باب إلحاق الناقص بالكامل ترغيبا، أو شبه استيفاء أجر المصلي تاما بالنسبة إليه باستيفاء أجر الحاج تاما بالنسبة إليه، وأما وصف الحج والعمرة بالتمام إشارة إلى المبالغة، (رواه الترمذي) : وقال: حسن غريب، ورواه الطبراني من حديث أبي أمامة بإسناد جيد، ذكره ميرك.
الکوکب الدری (1/ 466)میں ہے:
(باب ما ذكر مما يستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاة الصبح إلخ)
في وضع الباب إشارة إلى دفع ما يتوهم من عدم جواز الجلوس فيه نظرًا إلى أمر النبي صلى الله عليه وسلم للتطوع في البيت، وما يتوهم من عدم الأجر في القعود في المسجد بعد صلاة الصبح لأن الأجر موقوف على كون الجلوس بانتظار الصلاة ولا صلاة بعد الصبح ينتظرها، بأن الأجر في الجلوس بعد الصبح مأمول وانتظار الصلاة عام للفريضة والنافلة، وأداء النافلة في المسجد مشروع.
قوله :كانت له كأجر حجة وعمرة)الواو إما لأصل معناه وهو الجمع فيكون وعدًا بإيتاء ثواب هذين لكل جالس أو بمعنى أو، فيكون تفاوت الأجر بتفاوت حال الأجير في إخلاص نيته وصفاء طويته، والمناسبة بين هذين والجلوس في المسجد غير خفية فإن الحاج المعتمر حابس نفسه في ضيافة الله وبيته الشريف كما أن الحابس في مسجده حابس نفسه في بيته فيضاف ضيافته.
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (ص181)میں ہے:
قوله: "ثم قعد يذكر الله تعالى” أفاد العلامة القاري في شرح الحصن الحصين أن القعود ليس بشرط وإنما المدار على الاشتغال بالذكر هذا الوقت قوله: "ثم صلى ركعتين” ويقال لهما ركعتا الإشراق وهما غير سنة الضحى قوله: "تامة” أي كل منهما أي غير ناقص ثوابهما بارتكاب نحو محظور إحرام أو فساد والمراد الحج النفل والتأكيد يفيد أن له ذلك الأجر حقيقة وليس من قبيل الترغيب.
اشعۃ اللمعات(1/453)میں ہے:
"عنه(ای انس رض) قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من صلی الفجر بجماعة "کسے کہ بگزاردنمازِ بامداد را بجماعت” ثم قعد یذکر الله حتی تطلع الشمس "پستر بہ نشیند درحالی کہ یاد میں کند خدای تعالی را تا آ نکہ بر آ ید آفتاب” ثم صلی رکعتین” پستر بگزارد دو رکعت اول این است وتا دوازدہ رکعت نیز آ مدہ است واول وقت وی بحکم ظاہر این حدیث طلوع آفتاب است وبعض ہم برین اند و نزد جمہور تا بلند شدن آ فتاب مقدار یک نیزہ و در روایات نیز آمدہ است ومشہور در مردم این است کہ این را نماز اشراق گویند ودر بعض روایات نیز بایں اسم موسوم شدہ است واکثر در احادیث ایں را صلاة ضحی نام شدہ وظاہر آ ن است کہ این ہر دو نماز یکے است اول وقت وی نزد ارتفاع شمس است وآخر وی قبل زوال ودر باب صلاة ضحی کلام متعلق باین مقام بیاید ان شاءاللہ تعالیٰ وبالجملہ ہر کہ دورکعت بایں وقت بگزارد ،”كانت له كاجر حجرة و عمرة "باشد مراورامثل اجر حج وعمرہ واجر حج بادائے فرض در جماعت واجر عمرہ بگزاردن دو رکعت نفل چنانچہ حج فرض است وعمرہ نفل۔۔۔۔۔۔”تامة تامة تامة "صفت عمرہ است یا ہرکدام وایں اگرچہ بحقیقت مثل آ ں نباشد زیرا کہ اجر بقدرِ تعب است ولکن مشابہ باو است وچنداں ثواب است کہ گویا عین او است وایں را از باب الحاق ناقص بکامل دارند "رواه الترمذي”
اشعۃ اللمعات(1/592)میں ہے:
"من قعد في مصلاه حين ينصرف من صلاة الصبح ” کسیکہ بہ نشیند یعنی تا بر آ مدن آ فتاب و بلند شدن وی درجائےکہ نماز کردہ است چون برگردد وفارغ شود از نمازِ بامداد "حتى يسبح ركعتى الضحى” تا آ نکہ بگزارد دو رکعت ضحی را”لا يقول الا خيرا ” نگویدمگر سخن نیک را وچیزے کہ دران ثواب آ خرت از ذکرو تلاوت ومانند آ ن واگر سخنے گوید کہ دران نفع مسلمانے ست نیز حکم آ ن دارد "غفر له خطاياه” آ مر زیدہ شود مرا ورا گناہانِ او "وان كانت اكثر من زبد البحر” واگرچہ باشد گناہانِ اومانند کف دریا در بسیاری” رواه ابوداؤد "اینجا مراد بصلاۃ ضحیٰ نماز اشراق است ودر احادیث دیگر احتمال اشراق وچاشت ہر دو دارد ماند آنکہ ظاہر حدیث درآن است کہ این ثواب مرتب بر نشستن در جائے نماز است واگر بر خیزد و در خلوت رود ومشغول گردداین ثواب بران مرتب نگردد ودر حدیث دیگر نیز آ مدہ است کہ ہر کہ بعد از نماز در جائے خودنشستہ بماند وذکر کند دعا می کننداورافرشتگان برحمت و مغفرت ودر وصایا مشائخ مذکور است کہ اگر ترس تفرقہ و پریشانی باشد یا ریارایابد در خلوت خود بروددمشغول گرددو بعض می گویند کہ ثواب ذکرو مشغولےبحال خود است ہر جاکہ بنشیند اما جزائے صبر وتحمل نفس بران دیگر است وگفتہ اند کہ استقبال قبلہ درایں وقت از دست ندہد واگر خواب آ ید ہم پس پا برود و دفع کند شیخ الاسلام شہاب الدین سہروردی گفتہ کہ عملے کہ جزائے ہم آ ن در دنیا فی الحال تیقد در نورانیت باطن میشود این عمل است کاتب حروف گوید عفا اللہ عنہ کہ ہمچنانکہ آ فتاب آ فاق ازاول صبح طلوع کردہ می آ ید وبسیط زمین را روشن می گرداند ہمچنین آفتاب ذکرو حضور در انفس بلند شدہ می رسد وساحت سینہ را روشن می گرداند وایں معنی نزد دریافت محسوس و مشہود است۔
مظاہر حق (1/627)میں ہے:
"مَنْ صَلَّى الفَجرَ في جَماعة ثم قَعَدَ يَذكُرُ اللَّهَ تعالى حتى تَطْلُعَ الشمْسُ ثم صَلى رَكعَتَيْنِ كانَتْ كأجْرِ حَجَّةٍ وعُمْرَةٍ تامَّةٍ تامَّةٍ تامَّةٍ” قال الترمذي: حديث حسن.
مطلب یہ ہے کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اسی مسجد میں اور اسی مصلی میں طلوع افتاب تک ذکر خداوندی میں مسلسل مشغول رہے اور پھر اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھے تو اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ ایک پورے حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی شخص حالت ذکر میں طواف کے لیے یا طلب علم کے لیے اور یا مسجد ہی میں مجلس وعظ میں جانے کے لیے مصلی سے اٹھا یا اسی طرح کوئی شخص وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر چلا آئے مگر ذکر خداوندی میں برابر مشغول ہی رہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب ملے گا۔
ذکر سے فارغ ہو کر طلوع آفتاب کے بعد دو رکعت نماز سورج کے ایک نیزہ کے بقدر بلند ہو جانے کے بعد پڑھنی چاہیے تاکہ وقت کراہت ختم ہو جائے اس نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اور اکثر احادیث میں اس کا نام صلاۃ الضحی بھی منقول ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں جن کے الگ الگ یہ دو نام ہیں اس کا ابتدائی وقت آفتاب کے بلند ہو جانے کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور انتہائی وقت سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے ہے ابتدائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز کو نماز اشراق کہتے ہیں اور انتہائی وقت میں پڑھی جانے والی نماز نماز چاشت کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے۔
مظاہر حق(1/830)میں ہے:
وعن معاذ بن أنس الجهني رضي الله عنه، قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من قعد في مصلاه حين ينصرف من صلاة الصبح، حتى يسبح ركعتي الضحى، لا يقول إلا خيرا، غفر له خطاياه وإن كانت أكثر من زبد البحر ". رواه أبو داود.
حدیث کے پہلے جز "من قعد”کی تشریح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فجر کی نماز پڑھ کر ذکر و فکر میں مشغول رہے اور نیک کاموں مثلا علم سیکھنے سکھانے وعظ و نصیحت اور بیت اللہ کے طواف میں مصروف رہے اور جب سورج طلوع ہو کر بلند ہو جاتا ہے تو خواہ گھر میں خواہ مسجد میں دو رکعتیں پڑھ لے اور یہ کہ نماز فجر اور نماز ضحیٰ کے درمیان سوائے نیک اور صالح کلام کے کوئی اور گفتگو و کلام نہ کرے تو اس کے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے فضل و کرم کے صدقے میں گناہ کبیرہ بھی بخش دے لہذا ملا علی قاری کی اس تقریر سے یہ معلوم ہوا کہ ارشاد گرامی "من قعد” (جو شخص بیٹھا رہے) بطور تمثیل کے فرمایا گیا ہے ورنہ تو یہاں ذکر اللہ اور نیک کاموں میں مشغول رہنا مراد ہے ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہاں ضحی کی نماز سے اشراق کی نماز مراد ہے جبکہ دوسری احادیث میں ضحی سے اشراق اور چاشت دونوں نماز متحمل ہوتی ہیں اور بظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ثواب اسی شخص کو ملتا ہے جو نماز فجر سے فارغ ہو کر اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے اور کوئی شخص اس جگہ سے اٹھ کر خلوت میں جا کر بیٹھ گیا اور وہاں ذکر اللہ عبادت میں مشغول رہا تو اسے مذکورہ ثواب نہیں ملے گا اگرچہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر پریشانی کا ڈر ہو یا یہ کہ ریا و نمائش کا وسوسہ پیدا ہو جانے کا شوق ہو تو ایسی صورت میں خلوت میں جا کر عبادت و و ذکر اللہ میں مشغولیت اختیار کی جائے علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسے موقع پر قبلہ رخ بیٹھنے کو ضروری سمجھا جائے اور اگر نیند کا غلبہ ہونے لگے تو اسے دفع کیا جائے۔
زبدۃ الفقہ ، مؤلفہ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب (ص:282) میں ہے:
نماز اشراق کی دو رکعت بھی ہے اور چار بھی بلکہ چھ بھی ہے اس کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے اور ایک پہر دن چڑھنے تک ہے ، افضل یہ ہے کہ جب فجر کی نماز ہو چکے تو مصلے پر سے نہ اُٹھے وہیں بیٹھا رہے اور درود شریف یا کلمہ شریف یا کسی اور ورد و وظیفہ یعنی ذکر و دعا یا تلاوت یا علمِ دین سیکھنے سکھانے وغیرہ میں مشغول رہے جب سورج نکل آئے اور ایک نیزہ بلند ہو جائے تو دو رکعت یا چار رکعت نماز اشراق پڑھ لے، اس کو ایک پورے حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر باہر چلا گیا اور کسی دنیاوی کام میں مشغول ہو گیا پھر سورج ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد اشراق کی نماز پڑھی تب بھی درست ہے لیکن ثواب کم ہو جائے گا۔
فتاویٰ رحیمیہ (5/223) میں ہے:
(سوال ۳۱۴) مسجد محلہ صبح کی نماز پڑھے اور تفسیر قرآن کی سماعت کی غرض سے دوسری مسجد میں جائے اور وہاں نماز اشراق پڑے تو نماز اشراق کا اجر و ثواب ملے گا یا نہیں ؟ کیا فرض نماز پڑھ کر اسی جگہ پر اشراق پڑھنا ضروری ہے؟ اگر مسجد سے مکان پر استنجا کے لئے یا گرم پانی سے وضو کرنے کے لئے جائے اور مکان ہی میں اشراق ادا کرے تو اجر و ثواب کا حق دار ہے یا نہیں؟
(الجواب ) نماز اشراق کی پوری فضیات اور مکمل ثواب کا وہ شخص مستحق ہے جو نماز فجر مسجد میں باجماعت ادا کرے یا بوجہ معذوری گھر میں پڑھے اور اسی جگہ بیٹھا رہے اور ذکر الہی میں مشغول رہے پھر وقت مکر وہ نکل جانے کے بعد دو رکعت یا چار رکعت صلوۃ الضحی ادا کرے۔ اور وہ شخص جو تفسیر قرآن سننے کے لئے دوسری مسجد میں جائے اور وقت ہونے پر اشراق کی نماز پڑھ لے وہ بھی اشراق کی فضیات پائے گا مگر نسبت کم ۔ اسی طرح وہ شخص بھی جو طبعی عذر ( استجا یا وضو کی ضرورت) کی وجہ سے گھر جانے پر مجبور ہوا ہے اور حاجت سے فراغت پا کر دنیوی کام میں مشغول ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے وہ بھی اشراق کے ثواب سے محروم نہ ہوگا۔ اور اس آمد ورفت کو مسجد میں ٹھہرے رہنے کا درجہ دیا جائے گا۔ اور جس طرح معتکف کے لئے طبعی حاجت کی بناء پر خروج مسجد منافی اعتکاف نہیں ہے اس کے لئے بھی منافی نہ ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved