- فتوی نمبر: 32-51
- تاریخ: 03 اپریل 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > تصاویر
استفتاء
میں کارٹون بنانے کا پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہوں۔ میری نیت اِس کام کے کرنے سے یہ ہے کہ لوگوں کو اسلامی معلومات ( Islamic Content) کہانی(Story) کی صورت میں مل جائیں کیونکہ اگر مسلمان کارٹون والی کہانیاں (Stories) نہیں بنائیں گے تو کافر بنائیں گے اور کافر اس کے ذریعے اپنے مذہب کی بھی ترویج کرتے ہیں لہٰذا جب مسلمانوں کے پاس اسلامی کارٹون موجود ہوں گے تو وہ کافروں کے کارٹون نہیں دیکھیں گے۔ جو مسلمان بچے نارتھ امریکہ اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں وہاں مسلم بچوں کے پاس صرف غیر مسلم معاشرے / کلچر کے کارٹون ہی دیکھنے کے لیے ہیں۔ ہمارے کام کا مقصد غیر مسلموں کی معلومات/ کلچر کے مقابلے میں اپنا کلچر متعارف کروانا ہے۔کیا اس نیت سے کارٹون بنانے کے پیشے کو اختیار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ایسے کارٹون بنانا جائز نہیں ہے جن میں جاندار کے چہرے کے نقوش یعنی آنکھ ، ناک وغیرہ واضح ہوں یا وہ کارٹون میوزک وغیرہ ناجائز امور پر مشتمل ہوں کیونکہ جاندار کے چہرے کے نقوش پر مشتمل کارٹون بنانا بھی تصویر سازی ہے اور حرام ہے البتہ اگر چہرہ کے نقوش نہ بنائے جائیں اور اس میں نصیحت اور عبرت کی کہانیاں ہوں اور وہ میوزک وغیرہ ناجائز امور سے بھی خالی ہوں تو پھر ایسے کارٹون بنانے کی گنجائش ہے۔
صحیح مسلم(رقم الحدیث:2106) میں ہے:
عن نافع، أن ابن عمر، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” الذين يصنعون الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم “
شامی(2/502) میں ہے:
وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها
النہایۃ فی شرح الہدایۃ(3/95) میں ہے:
فلما محى رأسه وصار بحال لاترى رأسه لاتكره لانه لا يعبد بلا رأس فالحق هو حينئذ بصور الجمادات.
البحر الرائق (2/30) میں ہے:
(قوله أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved