- فتوی نمبر: 27-171
- تاریخ: 16 اگست 2022
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز پڑھنے کا طریقہ
استفتاء
میرا سوال یہ ہے کہ نماز کی پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد جو جلسہ استراحت ہوتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری تحقیق کے مطابق نماز کی پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدہ کے بعد جلسہ استراحت مسنون نہیں ہےاور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے اس کا مسنون ہونا معلوم ہوتا ہے۔جن بعض روایات میں جلسہ استراحت کا ذکر ملتا ہے وہ سنت کے طور پر نہیں تھا بلکہ عذر کی وجہ سے تھا جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت اور امام طحاویؒ اور ابن قیمؒ کے قول سے اس کا عذر کے باعث ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
بخاری (1/113) میں ہے:
عن أيوب، عن أبي قلابة: أن مالك بن الحويرث قال لأصحابه: «ألا أنبئكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: وذاك في غير حين صلاة، فقام، ثم ركع فكبر، ثم رفع رأسه، فقام هنية، ثم سجد، ثم رفع رأسه هنية، فصلى صلاة عمرو بن سلمة شيخنا هذا. قال أيوب: كان يفعل شيئا لم أرهم يفعلونه، كان يقعد في الثالثة والرابعة.
ترجمہ: حضرت ایوب سختیانی حضرت ابو قلابہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن حویرث نے اپنے ساتھیوں سے کہا :کیا میں تمہیں رسول اللہ کی نماز نہ بتلاؤں؟ حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی فرض نمازکا وقت نہ تھا چنانچہ آپ کھڑے ہوئے پھر رکوع کیا اور تکبیر کہی پھر رکوع سے سر اٹھایااور تھوڑی دیرٹھہرے رہے پھر سجدہ کیا اور سجدہ سے سر اٹھایا اور تھوڑی دیر ٹھہرے رہے پھر آپ نے سجدہ کیا پھر سجدہ سے سر اٹھا کر تھوڑی دیر ٹھہرے رہے۔ غرض انہوں نے ہمارے شیخ عمر وبن سلمہ کی طرح نماز پڑھی حضرت ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں کہ عمرو بن سلمہ نماز میں ایک ایسا کام کیا کرتے تھے جو میں نے اور لوگوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا وہ یہ کہ وہ تیسری رکعت کے بعد یا چوتھی رکعت کے شروع میں بیٹھتے تھے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جلسۂ استراحت اس وقت تک صحابہؓ وتابعینؒ کا معمول نہیں تھا۔
بخاری (2/986) میں ہے:
عن أبي هريرة: «أن رجلا دخل المسجد يصلي، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في ناحية المسجد، فجاء فسلم عليه، فقال له: ارجع فصل فإنك لم تصل. فرجع فصلى ثم سلم، فقال: وعليك، ارجع فصل فإنك لم تصل قال في الثالثة: فأعلمني، قال: إذا قمت إلى الصلاة، فأسبغ الوضوء، ثم استقبل القبلة، فكبر واقرأ بما تيسر معك من القرآن، ثم اركع حتى تطمئن راكعا، ثم ارفع رأسك حتى تعتدل قائما، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا، ثم ارفع حتى تستوي وتطمئن جالسا، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا، ثم ارفع حتى تستوي قائما، ثم افعل ذلك في صلاتك كلها.»
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے وہ شخص نماز سے فارغ ہو کر آپ کے پاس آیا اور سلام کیا آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ۔ وہ واپس گیااور دوبارہ نماز پڑھ کر پھر آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی، تیسری مرتبہ اس شخص نے عرض کیا کہ مجھے نماز کا طریقہ بتلا دیجئے آپ نے فرمایا :جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو اور جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکو پڑھو اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر اطمینان سے سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر اطمینان سے سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اسی طرح ساری نماز میں کرو۔
اس حدیث میں نماز کا طریقہ بتاتے ہوئے آپﷺ نے دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنے کی بجائے سیدھا کھڑا ہونے کا حکم دیا ہے۔
ابو داؤد(1/107) میں ہے:
«عن عباس أو عياش بن سهل الساعدي أنه كان في مجلس فيه أبوه وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وفي المجلس أبو هريرة، وأبو حميد الساعدي، وأبو أسيد بهذا الخبر يزيد أو ينقص فذكر الحديث بطوله فيه: ” قال: الله أكبر فسجد فانتصب على كفيه وركبتيه وصدور قدميه وهو ساجد، ثم كبر فجلس فتورك ونصب قدمه الأخرى، ثم كبر فسجد، ثم كبر فقام ولم يتورك»
ترجمہ: عباس یا عیاش بن ساعدی ؒسے مروی ہے کہ وہ ایک ایسی مجلس میں تھے جس میں ان کے والد بھی تھے جو نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے اور اسی مجلس میں حضرت ابو ہریرہ،حضرت ابوحمید ساعدی اور حضرت ابو اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی تھے انہوں نے حدیث بیان کی جس میں یہ بھی تھا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی پھر سجدہ کیا اور حالت سجدہ میں ہتھیلیوں، گھٹنوں اور پاؤں کے پنجوں کے بل بلند رہے پھر تکبیر کہی پھر سرین زمین پر لگا کر بیٹھ گئے اور (دایاں )پاؤں کھڑا کر لیا پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پھر تکبیر کہی اور کھڑے ہو گئے، بیٹھے نہیں۔
السنن الكبرى للبیہقی (2/ 180 )میں ہے:
عن عبد الرحمن بن يزيد قال: ” رمقت ابن مسعود فرأيته ينهض على صدور قدميه، ولا يجلس إذا صلى في أول ركعة حين يقضي السجود.
ترجمہ: حضرت عبد الرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ وہ پہلی رکعت میں بیٹھتے نہ تھے بلکہ سیدھے کھڑے ہو جاتے تھے جب سجدہ مکمل کرتے۔
مصنف ابن ابی شیبۃ (رقم الحدیث:4011) میں ہے:
عن النعمان بن أبي عياش أدركت غير واحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ رفع رأسه من السجدة في اول ركعة والثالثة قام كما هو ولم يجلس
ترجمہ: حضرت نعمان بن عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ وہ پہلی اور تیسری رکعت میں (دوسرے سجدے سے) سر اٹهاتے تو(جیسے سجدہ میں ہوتے)ویسے ہی كهڑے ہوجاتے،بیٹھتے نہ تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ( رقم الحدیث:4005) میں ہے:
عن وهب بن كيسان قال: «رأيت ابن الزبير، إذا سجد السجدة الثانية قام كما هو على صدور قدميه»
ترجمہ: حضرت وہب بن کیسان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو دیکھا کہ وہ جب دوسرا سجدہ کر لیتے تو اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل جیسے (سجدہ میں) ہوتے ویسے ہی کھڑے ہو جاتے۔
مصنف ابن ابی شیبہ(رقم الحدیث:4004) میں ہے:
عن الشعبي، «أن عمر، وعليا، وأصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم كانوا ينهضون في الصلاة على صدور أقدامهم»
ترجمہ: حضرت امام شعبی رحمہ اللّٰہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ نماز میں اپنے قدموں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ(رقم الحدیث:4007) میں ہے:
عن نافع، عن ابن عمر، «أنه كان ينهض في الصلاة على صدور قدميه»
ترجمہ: حضرت نافع ؒحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نماز میں اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے تھے۔
نصب الرأیۃ(1/468) میں ہے:
عن عبد الله بن مسعود أنه كان ينهض في الصلاة على صدور قدميه ولم يجلس، وأخرج نحوه عن علي، وكذا عن ابن عمر، وكذا عن ابن الزبير، وكذا عن عمر.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نماز میں اپنے پاؤں کے پنجوں کے بل اٹھ جاتے، بیٹھتے نہ تھے اور یہی منقول ہے حضرت علیؓ،حضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابن زبیرؓ اور حضرت عمرؓ سے۔
ابن ماجہ(1/963) میں ہے:
عن معاوية بن أبي سفيان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تبادروني بالركوع، ولا بالسجود، فمهما أسبقكم به إذا ركعت تدركوني به إذا رفعت، ومهما أسبقكم به إذا سجدت تدركوني به إذا رفعت، إني قد بدنت»
ترجمہ: حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم مجھ سے رکوع اور سجدہ میں جلدی نہ کیا کرو اور جب میں تم سے رکوع میں آگے نکل جاؤں تو رکوع سے سر اٹھانے تک تم میرے ساتھ مل جاؤ گے اور جب میں سجدے میں تم سے آگے نکل جاؤں تو سجدے سے سر اٹھانے تک تم میرے ساتھ مل جاؤ گے کیونکہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں (بھاری جسم ہوگیا ہوں)۔
عمدة القاری (6/ 98)میں ہے:
قال الطحاوي: فلما تخالف الحديثان احتمل أن يكون ما فعله في حديث مالك بن الحويرث لعلة كانت به، فقعد من أجلها، لا لأن ذلك من سنة الصلاة. وقال أيضا: لو كانت هذه الجلسة مقصودة لشرع لها ذكر مخصوص.
ترجمہ: امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جلسہ استراحت کے متعلق احادیث مختلف ہیں تو احتمال ہے کہ جو مالک بن حویرثؓ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا وہ کسی عذر کی وجہ سے تھا اس عذر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے اٹھ کر بیٹھ گئے یہ بیٹھنا نماز کی سنت ہونے کے باعث نہ تھا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ جلسہ استراحت شریعت میں مقصود ہوتا تو اس کا خاص ذکر ہوتا۔
زاد المعاد فی ہدی خير العباد (1/ 276)میں ہے:
ولو كان هديه – صلى الله عليه وسلم – فعلها دائما لذكرها كل من وصف صلاته صلى الله عليه وسلم -. ومجرد فعله – صلى الله عليه وسلم – لها لا يدل على أنها من سنن الصلاة، إلا إذا علم أنه فعلها سنة يقتدى به فيها. وأما إذا قدر أنه فعلها للحاجة لم يدل ذلك على كونها سنة من سنن الصلاة.
ترجمہ: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مضمون کی تمام روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ ہمیشہ جلسہ استراحت کی ہوتی تو یقیناً ہر وہ شخص اس کا ذکر کرتا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی ہے اور فقط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل کر لینا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ نماز کی سنت ہے الا یہ کہ جب معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل بطور سنت کیا ہے تا کہ لوگ بھی ایسا کریں تو یہ عمل سنت کہلائے گا البتہ جب یہ معلوم ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کسی عذر کے پیش نظر کیا ہے تو پھر اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ نماز کی سنتوں میں سے ہے‘‘
© Copyright 2024, All Rights Reserved