- فتوی نمبر: 30-283
- تاریخ: 26 نومبر 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز جنازہ و میت کے احکام
استفتاء
آج کل جب کسی کے رشتہ دار کا انتقال ہوتا ہے تو میت کے رشتہ دار بوجہ دوری کے وہیں نماز جنازہ ادا کرتے ہیں،مثلا کراچی میں فوتگی ہوئی جبکہ آبائی علاقہ( کوئٹہ) میں دوبارہ نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے:
1۔ اگر کراچی میں ولی موجود ہو مگر جنازے میں شریک نہ ہو اور پھر آبائی گاؤں میں دوبارہ نماز جنازہ میں شریک ہو جائے، کیا ولی کے لیے ایسا کرنا اور نماز جنازہ دوبارہ پڑھنا درست ہے؟
2۔ نماز جنازہ میں ولی کی ترتیب میراث والے عصبہ کی طرح ہے یا اس میں کچھ فرق ہے ؟
3۔آنے جانے پر زیادہ اخراجات اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے لوگ نماز جنازہ کے لیے نہیں آتے، کیا ایسی حالت میں دو دفعہ نماز جنازہ کی گنجائش ہے؟ اگر نہیں تو کیا مذہب غیر پر فتوی دیا جا سکتا ہے؟
کسی شخص کے دو گھر ہیں ( کوئٹہ اور کراچی میں) وہ اپنی فیملی کے ساتھ کبھی کوئٹہ میں رہتا ہے اور کبھی کراچی میں رہتا ہے۔ اب کراچی میں اس کا انتقال ہوا، اس کے بیٹے والدہ سمیت دفنانے اور تعزیت کے لیے اپنے آبائی علاقہ آتے ہیں۔ چند دن گزارنے کے بعد دوبارہ کراچی چلے جاتے ہیں۔
4۔ کیا بیوہ ( متوفی عنہا زوجہا) کے لیے کوئٹہ آنا درست ہے؟
5۔ اگر دونوں رہائشی گھر قریب ہوں، بیوہ تعزیت لینے کے لیے صبح آتی ہو اور شام کو چلی جاتی ہو، تو پھر کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جب میت کے اولیاء میں سے کسی ایک ولی نے خود یا کسی ایک ولی کی اجازت سے کسی دوسرے نے نماز جنازہ پڑھادی یا کسی دوسرے نے بغیر اجازت کے پڑھائی لیکن کوئی ایک ولی اس میں شریک ہوگیا تو اب اس میت کے اولیاء کے لیے دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں، البتہ اگرکسی بھی ولی نے جنازہ نہ پڑھا ہو اور دوسرے لوگوں نے ان کی اجازت کے بغیر جنازہ پڑھا دیا ہو اور کوئی ولی اس میں شریک نہ ہوا ہو تو اس صورت میں دوبارہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن اس دوبارہ کی نماز جنازہ میں صرف وہی لوگ شریک ہو سکتے ہیں جو پہلی نماز جنازہ میں شریک نہیں تھے۔
2۔ نماز جنازہ میں اولیاء کی ترتیب میراث والے عصبہ کی طرح ہے البتہ کسی میت کا اگر بیٹا بھی ہو اور باپ بھی ہو تو اگرچہ میراث میں بیٹا باپ سے مقدم عصبہ ہے، لیکن نماز جنازہ میں باپ کے احترام کی وجہ سے باپ بیٹے پر مقدم ہوگا۔
3۔ نماز جنازہ چونکہ فرض کفایہ ہے جو بعض کے ادا کرنے سے ذمے سے ساقط ہو جاتا ہے سب کے لیے ادا کرنا ضروری نہیں لہذا دوسری مرتبہ نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں ہوگا۔مذہب غیر پر فتوی کسی ضرورت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہاں کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے۔
4۔ جس جگہ شوہر کی وفات ہو اسی جگہ بیوہ کے لیے عدت گزارنا لازم ہے البتہ اگر کوئی عذر ہو تو پھر اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا جا سکتا ہے بغیر عذر کے نہیں اور شرعی اعتبار سے ان عذروں کا اعتبار ہوتا ہے جس میں ضرورتِ شدیدہ ہو اور گھر سے نکلنا ضروری ہو ۔مذکورہ صورت میں چوں کہ بیوی کے لیے شوہر کی میت کو دفنانے کے لیے آبائی گاؤں جانا عذر میں شامل نہیں لہذا شوہر کی میت کے ساتھ گاؤں نہیں جا سکتی۔
5۔ جس گھر میں خاوند کا انتقال ہوا ہو بیوہ اس گھر سے دوسرے گھر میں تعزیت کے لیے بھی نہیں جا سکتی ۔
فتاوی ہندیہ(1/164) میں ہے:
ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء أخر بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا، كذا في الجوهرة النيرة، فإن صلى غير الولي أو السلطان أعاد الولي إن شاء، كذا في الهداية
فتاوی شامی(2/123) میں ہے:
(فإن صلى غيره) أي الولي (ممن ليس له حق التقديم) على الولي (ولم يتابعه) الولي (أعاد الولي) ولو على قبره إن شاء لأجل حقه لا لإسقاط الفرض؛ ولذا قلنا: ليس لمن صلى عليها أن يعيد مع الولي لأن تكرارها غير مشروع (وإلا) أي وإن صلى من له حق التقدم كقاض أو نائبه أو إمام الحي أو من ليس له حق التقدم وتابعه الولي (لا) يعيد لأنهم أولى بالصلاة منه
فتاوی شامی (3/143) میں ہے:
(ثم الولي) بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب فيقدم على الابن اتفاقا
وفي الشامية) (قوله: فيقدم على الابن اتفاقا) هو الأصح لأن للأب فضيلة عليه وزيادة سن، والفضيلة والزيادة تعتبر ترجيحا في استحقاق الإمامة كما في سائر الصلوات بحر عن البدائع، وقيل هذا قول محمد. وعندهما الابن أولى. قال في الفتح: وإنما قدمنا الأسن بالسنة. قال – عليه الصلاة والسلام – في حديث القسامة «ليتكلم أكبرهما» وهذا يفيد أن الحق للابن عندهما إلا أن السنة أن يقدم هو أباه، ويدل عليه قولهم: سائر القرابات أولى من الزوج إن لم يكن له منها ابن، فإن كان فالزوج أولى منهم لأن الحق للابن، وهو يقدم أباه، ولا يبعد أن يقال إن تقديمه على نفسه واجب بالسنة
فتاوی ہندیہ (1/224) میں ہے:
والأولياء على ترتيب العصبات الأقرب فالأقرب إلا الأب فإنه يقدم على الابن، كذا في خزانة التبيين قيل: هذا قول محمد رحمه الله تعالى وعندهما الابن أولى، والصحيح أنه قول الكل، كذا في التبيين، وهكذا في الغياثية وفتح القدير
النہایہ(4/134) میں ہے:
(وإن صلى الولي لم يجز لأحد أن يصلي بعده)… وقال الشافعي: تعاد الصلاة على الجنازة مرة بعد أخرى
فتاوی شامی( 3/536) میں ہے:
(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه
(وفي الشامية) قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية….. (قوله: ولا يخرجان) بالبناء للفاعل، والمناسب ” تخرجان ” – بالتاء الفوقية -؛ لأنه مثنى المؤنث الغائب أفاده ط. (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها
فتاوی شامی(3/538) میں ہے:
(أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved