- فتوی نمبر: 28-268
- تاریخ: 15 فروری 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز جنازہ و میت کے احکام
استفتاء
جنازہ لے جاتے وقت بلند آواز سے تو ذکر نہیں کر نا چاہیے، لیکن کیا آہستہ آواز سے جنازہ لے جاتے وقت کوئی مسنون ذکر ہے؟ یا پھر خاموش ہی رہنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جنازہ کے پیچھے چلتے ہوئے آہستہ آواز سے کوئی ذکر مسنون نہیں ہاں آہستہ آواز سے ذکر کرنے کی گنجائش ہے لہٰذا خاموش ہی رہنا چاہیے۔
المعجم الكبير للطبرانی (5/ 213)میں ہے:
5130: عن زيد بن أرقم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله عز وجل يحب الصمت عند ثلاث، عند تلاوة القرآن وعند الزحف وعند الجنازة».
ترجمہ:حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تین موقعوں پر خاموشی پسند یدہ ہے: تلاوت کے وقت،جہاد میں دشمنوں پر حملہ کرتے وقت اور جنازہ لے جاتے وقت۔
مصنف ابن أبي شيبہ (6/ 531 ت الشثري)میں ہے:
«عن ابن جريج قال: كان رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- إذا كان في جنازة أكثر السكوت وحدث نفسه».
ترجمہ: ابن جریج فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ جنازے کے پیچھے چلتے تو خاموشی کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے اور اپنے آپ سے سرگوشی کرتے۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص122)میں ہے:
كما كره فيها رفع صوت بذكر أو قراءة. فتح
وفي حاشيته رد المحتار: (قوله: كما كره إلخ) قيل تحريما، وقيل تنزيها كما في البحر عن الغاية. وفيه عنها: وينبغي لمن تبع الجنازة أن يطيل الصمت. وفيه عن الظهيرية: فإن أراد أن يذكر الله – تعالى – يذكره في نفسه.
طوالع الانوار حاشية الدر المختار (مخطوط)
(كَمَا كُرِهَ فِيهَا)، أي: في الجنازة (رَفْعُ صَوْتٍ بِذِكْرٍ أَوْ قِرَاءَةٍ. «فَتْح»). قال: ويذكر في نفسه…. وأخرج ابن أبي شيبة في «مصنفه»، عن ابن جريج قال: «كان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم إذا كان في جنازةٍ: أكثر السكوت، وحدث نفسه». وهذا مرسل صحيح.
ولذا قال في «السراج»: وعلى متبعي الجنازة الصمت والسكوت. ومن أراد أن يذكر الله تعالى: ذكره في نفسه سرا. ويستحب لمن اتبع الجنازة: أن يكون مشغولا بالذكر والفكر، فيما يلقاه الميت، وأن هذا عاقبة أهل الدنيا، ومصيرهم. وليحذر من الكلام في هذه الحالة، بما لا فائدة فيه؛ فإن هذا وقت ذكر وعظة، فيقبح فيه الغفلة والاشتغال بالحديث الفارغ عن الفائدة. فإن لم يذكر الله: فليلزم الصمت.
البحرالرائق(2/192)میں ہے:
“قال ابن نجيم الحنفي: «وينبغي لمن تبع جنازة أن يطيل الصمت”
فتاویٰ عالمگیری(1/ 162)میں ہے:
«وعلى متبعي الجنازة الصمت ويكره …. فإن أراد أن يذكر الله يذكره في نفسه، كذا في فتاوى قاضي خان»
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص606)میں ہے:
«الراكب يسير خلف الجنازة والماشي أمامها …. وعليهم الصمت. وفي حاشيته: وفي الشرح عن الظهيرية فإن أراد أن يذكر الله تعالى ففي نفسه أي سرا بحيث يسمع نفسه ۔
خیر الفتاوی (3/185) میں ہے:
سوال: جنازہ اٹھا کر لے جانے والے جب چلیں تو ساتھ چلنے والے اور اٹھانے والے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت یا قرآن پاک کی کسی سورۃ کی تلاوت کرتے چلیں یا خاموشی کے ساتھ چلیں ؟
الجواب: میت کو اٹھا کر لے جانے والوں اور دوسرے پیچھے چلنے والوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ خاموش ہوکر چلیں۔ الخ
کفایت المفتی: (4/44)میں ہے:
(سوال) بمبئی اور اطراف بمبئ میں اکثر یہ رواج ہے کہ جس وقت میت کو برائے دفن مکان سے اٹھا کر لے جایا جاتا ہے تو چند آدمی میت سے آگے چلتے ہیں اور ان میں سے ایک آدمی نہایت ترنم کے ساتھ بلند آواز سے لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پڑھتا ہے اور اس کو ہادی کہتے ہیں یعنی لفظ ہادی مخصوص ہے اس کے لئے جو آگے چل کر بلند آواز سے پڑھتا ہے اب ہادی کے کہنے کے بعد تمام وہ آدمی جو میت سے آگے چلنے والے ہیں اس ہادی کی طرح وہی کلمہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں اور اس صورت سے تمام راستہ بھر پڑھتے ہوئے قبرستان ………. لہذا مفصل جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیے گا کہ کیا یہ طریقہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کیا یہ طریقہ میت کے لئے باعث ثواب ہوسکتا ہے۔
(جواب ۱۵) میت کے جنازے کو قبرستان کی طرف لے جانے کا صحیح مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب لوگ سکون اور سکوت کے ساتھ جنازہ کے پیچھے پیچھے چلیں جو لوگ جنازے کو کندھا دیں ان کے لئے حسب ضرورت جنازے کے دائیں بائیں آنا جانا مباح ہے جنازے کے آگے کسی جماعت کو چلنا اور اس طریقے سے بلند آواز سے ذکر کرنا جو سوال میں مذکور ہے شرعی طریقہ نہیں ہے اور نہ قرون اولیٰ اور سلف صالحین سے اس طریقے کا ثبوت ملتا ہے اپنے دل میں ہر شخص ذکر یا دعائے مغفرت کرتا ہوا جائے تو یہ جائز ہے ۔
کفایت المفتی(4/149)میں ہے:
رسم نمبر ۲۔ جب جنازہ لے کر چلتے ہیں تو جنازے کے آگے کچھ لوگ بآواز بلند کلمہ شریف پکار کر پڑھتے جاتے ہیں قبرستان تک ایسا کرتے ہیں ؟حکم شرعی ۔ جنازے کے ساتھ کلمہ یا اور کچھ بلند آواز سے پڑھنا مکروہ اور بدعت ہے ۔
جنازے کے پیچھے جانے والوں کو خاموش رہنا چاہیے …..اور جنازے کے ہمراہیوں کو خاموشی لازم ہے ۔
جوذکر اور قرأت کرنا چاہے اسے چاہئیے کہ دل میں کرے ۔
جنازے کے ساتھ جانے والوں کو خاموشی لازم ہے ۔
اعلم ان الصواب والمختار وما کان عليه السلف السکوت في حال السیر مع الجنازة ….. والحکمة فيه ظاهرة وهى انه اسکن لخاطره واجمع لفکره فیما یتعلق بالجنازة وهو المطلوب فی هذا الحال فهذا هو الحق.( کتاب الاذکار للنووی) جاننا چاہیے کہ را ہ حق اور پسندیدہ اور جس پر سلف صالحین کار بند تھے وہ یہی ہے کہ جنازے کے ساتھ چلنے کی حالت میں خاموش رہے …… اور اس کی حکمت ظاہر ہے وہ یہ کہ حالت خاموشی میں دل کو اطمینان اور یکسوئی زیادہ ہوگی جس سے جنازے کے حالات میں اچھی طرح غور و فکر کرسکے گا اور اس حالت میں یہی مطلوب ہے پس یہی حق ہے۔
اور شرح میں ظہیریہ سے منقول ہے کہ اگرکوئی خدا کاذکر کرنا چاہے تو اپنے نفس میں یعنی چپکے چپکے کرے اس طرح کہ اپنی آواز خود سن لے اور سراج میں ہے کہ جو شخص جنازے کے پیچھے جائے اس کے لئے مستحب ہے کہ خدا کے ذکر میں (آہستہ آہستہ) مشغول رہے او ریہ سوچے کہ میت کو کیا کیا حالات پیش آئیں گے اور یہ کہ اہل دنیا کا انجام یہی ہے اور بے فائدہ باتوں سے بچے کیونکہ یہ وقت ذکر اور نصیحت کا ہے تو ایسے وقت غفلت بری ہے
فتاوی رحیمیہ: (2/164)ميں ہے:
(سوال ۶۰) جنازہ لے جاتے وقت آوازملا کر زور سے کلمہ وغیرہ پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ بینوا توجروا۔
(الجواب)جنازہ کو خاموشی کے ساتھ لے جانے کا حکم ہے، حدث شریف میں ہے کہ جنازہ لے جاتے وقت خاموشی اختیار کرناخدا تعالیٰ کو پسندیدہ ہے إن الله عز وجل يحب الصمت عند ثلاث، عند تلاوة القرآن وعند الزحف وعند الجنازة». (طب) عن زید بن ارقم(جامع الصغیر للسیوطی ص ۷۵) ۔۔۔۔کلمہ وغیرہ آہستہ پڑھنا ممنوع نہیں ، بلاکراہت جائز ہے ۔ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے …. فان ارا د ان یذکر اﷲ یذ کرفی نفسه یعنی …. اگر خدا تعالی کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو دل میں کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved