• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)جس پر حج فرض ہو اس کازکوۃ لینا اور(2)فی سبیل اللہ کا مفہوم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرا م اس مسئلے کے بارے میں کہ جس شخص پر حج فرض ہو اور اس کے پاس کے اخراجات موجود نہ ہوں تو کیا ایسے شخص کو زکوۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟

زیدکا مؤقف ہے کہ ایسے شخص کو زکوۃ دینا جائز ہے کیونکہ یہ بھی فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل ہے ۔اور بکر کا مؤقف ہے کہ ایسے شخص کو زکوۃ دینا جائز نہیں کیونکہ یہ شخص فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل نہیں ۔

جمہور فقہائے احنافؒ کے نزدیک راجح قول کیا ہے ؟رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت:ایک مرتبہ پہلے اتنے پیسے موجود تھے جن سے حج ہوسکتا تھا لیکن سستی کی وجہ سے بعد میں وہ پیسے ختم ہوگئے ابھی تک دوبارہ اتنے پیسے اس کی ملک میں نہیں آئے جن سے وہ حج کرسکے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ شخص فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل نہیں کیونکہ اولاً احنافؒ کے راجح قول کے مطابق فی سبیل اللہ سے مراد منقطع الغزاۃ ہے ۔

اور ثانیاً امام محمد ؒ نے اگرچہ فی سبیل اللہ کے مفہوم میں منقطع الغزاۃ کو بھی داخل مانا ہے تاہم اس سے مراد وہ صورت ہے جب راستے میں سواری یا نفقہ وغیرہ ہلاک یا ختم ہوجانے کی وجہ سے حج کرنا ممکن نہ رہا ہواپنے وطن میں رہتے ہوئے اگر نفقہ وغیرہ ہلاک یاختم ہوجائے تو اس صورت میں یہ شخص امام محمدؒ کے نزدیک بھی فی سبیل اللہ (اللہ کے راستے میں )کےمفہوم میں داخل نہ ہوگا۔

اور ثالثاً  اگر فی سبیل اللہ کے مفہوم میں ہر اس شخص کو داخل ماناجائے جو کسی بھی خیر کے کام میں لگا ہوا ہو تو مذکورہ شخص فی الحال کسی ایسے خیر کے کام میں لگا ہوا نہیں کہ جس کی وجہ سے اسے فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل کیا جاسکتا ہو۔غرض مذکورہ شخص کسی بھی قول کے مطابق فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل نہیں۔

رابعاًٍٍ اگر مذکورہ شخص کسی نہ کسی قول کے مطابق فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل بھی ہو تو محض فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل ہونے کی وجہ سے اسے زکوۃ نہیں دی جاسکتی جب تک کہ فقر کی شرط اس میں متحقق نہ ہو۔لہذا مذکورہ صورت میں اگر اس شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو اسے زکوۃ دی جاسکتی ہے نہ اس وجہ سے کہ یہ فی سبیل اللہ کے مفہوم میں داخل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ فقیر کے مفہوم میں داخل ہے ۔اور اگر اس کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود ہے توا سے زکوۃ نہیں  دی جاسکتی ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

( ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه ) وفي الظهيرية الدفع للمديون أولى منه للفقير ( وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة ) وقيل الحاج وقيل طلبه العلم وفسره في البدائع بجميع القرب وثمرة الاختلاف في نحو الأوقاف

( لا يملك نصابا ) قيد به لأن الفقر شرط في الأصناف كلها إلا العامل وابن السبيل إذا كان له في وطنه مال بمنزلة الفقير . بحر

( وهو منقطع الغزاة ) أي الذين عجزوا عن اللحوق بجيش الإسلام لفقرهم بهلاك النفقة أو الدابة أو غيرهما فتحل لهم الصدقة وإن كانوا كاسبين إذ الكسب يقعدهم عن الجهاد . قهستاني قوله ( وقيل الحاج ) أي منقطع الحاج قال في المغرب الحاج بمعنى الحجاج كالسامر بمعنى السمار في قوله تعالى { سامرا تهجرون } المؤمنون 67 وهذا قول محمد والأول قول أبي يوسف اختاره المصنف تبعا للكنز قال في النهر وفي غاية البيان إنه الأظهر وفي الإسبيجابي أنه الصحيح ………وقد قال في البدائع في سبيل الله جميع القرب فيدخل فيه كل من سعى في طاعة الله وسبيل الخيرات إذا كان محتاجا اه قوله ( وثمرة الاختلاف الخ ) يشير إلى أن هذا الاختلاف إنما هو في تفسير المراد بالآية لا في الحكم ولذا قال في النهر والخلف لفظي للاتفاق على أن الأصناف كلهم سوى العامل يعطون بشرط الفقر فمنقطع الحاج أي وكذا من ذكر بعده يعطي اتفاقا وعن هذا قال في السراج وغيره فائدة الخلاف تظهر في الوصية يعني ونحوها كالأوقاف والنذور على ما مر اه أي تظهر فيما لو قال الموصي ونحوه في سبيل الله وفي البحر عن النهاية فإن قلت منقطع الغزاة أو الحج إن لم يكن في وطنه مال فهو فقير وإلا فهو ابن السبيل فكيف تكون الأقسام سبعة قلت هو فقير إلا أنه زاد عليه بالانقطاع في عبادة الله تعالى فكان مغايرا للفقير المطلق الخالي عن هالقيد(ص287ج3)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved