- فتوی نمبر: 4-73
- تاریخ: 12 مئی 2011
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
میرے والد صاحب پہلے اونی دھاگے کا کام کرتے تھے۔ اور چونکہ والد صاحب کا زیادہ کام ادھار کا تھا تو اپنی رقم کچھ پاس موجود ہوتی تھی اور کچھ لوگوں سے لینی ہوتی تھی اور جبکہ کچھ ایڈوانس کی صورت میں مل والوں کے پاس ہوتی تھی۔ ایسی صورت میں میرے والد صاحب جب سالانہ زکوٰة کا حساب کچھ اسطرح کرتے تھے۔ جو لین دین ہوتا تھا اس کے اندازہ سے جو رقم اپنی بنتی تھی اس پر زکوٰة دے دیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ میرے والد صاحب کی بہت سی رقم کچھ ایسے لوگوں کے پاس بھی تھیں جن سےواپسی کی امید بہت کم تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی۔ سالانہ زکوٰة میں اس رقم کو بھی شامل کیا کرتےتھے۔پھر تقریباً دس سال پہلے کاروبار میں کافی نقصان ہونے کی وجہ سے جب علماء حضرات سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو رقم ملنے کی امید نہیں آپ اس کی زکوٰة مت دیں۔ لیکن اس کے بعد بھی میرے والد صاحب دو سال تک اس کی بھی زکوٰة دیتے رہے۔
پھر نصاب سے کم رقم ہونے کی وجہ سے زکوٰة دینا ختم کر دی۔ آج تقریباً دس سال بعد ہمیں پرانی وہ رقم ملتی ہے جس کی ہمیں امید نہیں تھی ۔اب مجھے اس رقم کا پوچھنا ہے کہ اس رقم کی کیا صورت ہے؟ کیا اس پر پچھلے دس سال کی زکوٰة دینی ہوگی جب کہ پچھلے دس سال میں ہم زکوٰة کا نصاب میں نہیں آئے۔ آج بھی وہ رقم سرمایہ میں شامل کرنے کے بعد ہمارا نقصان پورا نہیں ہوتا۔ اس سارے معاملے میں رہنمائی فرمائیں۔ اگر کوئی بات لکھنے سے رہ گئی ہو یا آپ ضروری سمجھیں تو ضرور پوچھ لیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جس ادھار رقم کی وصولی سے نا امیدی ہوجائے اس کی زکوٰ واجب نہیں ہوتی۔ پھر اگر خلاف توقع مل جائےتو اس پر پچھلی مدت جتنی گذری ہے اس کی زکوٰة نہیں آتی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved