استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ جمعہ کی اذانِ ثانی کا جواب دینا چاہیے یا نہیں؟ اگر دینا ہو تو کس طریقے سے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جمعہ کی اذانِ ثانی کا زبان سے جواب دینا مکروہ تنزیہی ہے۔ البتہ زبان کو حرکت دیے بغیر صرف دل سے جواب دینا بغیر کسی کراہت کے درست ہے۔
در مختار میں ہے:
و ينبغي أن لا يجيب بلسانه اتفاقاً في الأذان بين يدي الخطيب و أن يجيب بقدمه اتفاقاً في الأذان الأول يوم الجمعة لوجوب السعي بالنص. (2/ 87)
فتح القدیر میں ہے:
و في التجنيس لا يكره الكلام عند الأذان بالإجماع استدلالاً باختلاف أصحابنا في كراهيته عند أذان الخطبة يوم الجمعة فإن أبا حنيفة إنما كرهه لأنه يلحق في هذه الحالة بحالة الخطبة و كان هذا اتفاقاً على أنه لا يكره في غير هذه الحالة. (1/ 254)
البحر الرائق میں ہے:
و في المجتبى في ثمانية مواضع إذا سمع الأذان لا يجيب: في الصلاة و استماع خطبة الجمعة … قال أبو حنيفة رحمه الله لا يثني بلسانه و المراد بالثناء الإجابة. (1/ 452)
امداد المفتین میں ہے:
’’ …….. اسی اختلاف پر یہ اختلاف مبنی ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی کا جواب دینا جائز ہے یا نہیں۔ جو حضرات ممانعت کو صرف کلام دنیوی کے ساتھ مقید کرتے ہیں وہ اجازت دیتے ہیں ’’كما عند الطحطاوي في باب الأذان 1/ 188‘‘۔ اور ظاہر کلام کے موافق مطلق رکھتے ہیں، وہ منع کرتے ہیں ’’كما في رواية الدر المختار: نمبر 4، رواية النهر: نمبر5‘‘
ہمارے اساتذہ و اکابر نے امام صاحب کے کلام کا مطلب در مختار و شامی وغیرہ کے مطابق یہی قرار دیا ہے کہ مطلقاً کلام کو ممنوع سمجھا جاوے، اور اجابت اذان کو بھی اس میں داخل کیا جاوے۔ وجوہ ترجیح مختصراً یہ ہیں:
اول یہ کہ کلام مطلق ہے، اس کو مقید کرنے کے کوئی قرینہ کلام امام میں موجود نہیں۔ دوسرے احوط بھی یہی ہے۔ کیونکہ اجابت اذان باللسان واجب تو باتفاق نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ مستحب ہے۔ اب جو شخص اذان ثانی کا جواب زبان سے دیتا ہے، اس نے بعض مشائخ کے نزدیک مستحب پر عمل کیا ہے، اور بعض کے نزدیک ایک ممنوع کا ارتکاب کیا ہے۔ ایسے مشتبہ موقع میں ترک ہی میں احتیاط معلوم ہوتی ہے۔
تیسرے یہ مذہب امام اعظم کا مؤید بالحدیث و الآثار بھی ہے۔ حدیث پر اگرچہ بعض حضرات نے یہ جرح کی ہے کہ وہ مرفوع نہیں بلکہ زہری کا قول ہے لیکن شمس الائمہ سرخسی کی عبارت نمبر7 سے واضح ہو گیا کہ یہ حدیث مرفوعاً بھی منقول ہے اور موقوفاً بھی۔ اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ اور زیلعی نے بھی مرفوعاً کو غریب کہہ کر اشارہ کر دیا کہ رفع فی الجملہ ثابت ہے۔ نیز نصب الرایہ میں یہی مذہب فقہاء صحابہ حضرت علی، ابن عباس، عمر رضی اللہ عنہم کا اور مبسوط میں عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نقل کیا گیا ہے۔ و کفیٰ بہم قدوۃ
خلاصہ یہ ہے کہ اذان ثانی کا جواب دینا بعض حنفیہ کے نزدیک مستحب ہے۔ بعض کے نزدیک ممنوع و مکروہ۔ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ ترک کیا جاوے۔
تنبیہ: البتہ اختلاف روایات حدیث اور اختلاف مشائخ کا یہ اثر ضرور ہے کہ یہ کراہت تحریمی نہیں، بلکہ تنزیہی ہے جیسا کہ در مختار اور نہر کے الفاظ ’’لا ينبغي‘‘ سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (2/ 333)
© Copyright 2024, All Rights Reserved