• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جمعہ کی دونوں اذانوں اور فرض نمازوں کی اذانوں کا کیا حکم؟

استفتاء

1-جمعہ کی دونوں اذانوں کا کیا حکم ہے سنت ہیں  یا واجب ؟اور دو اذانوں  کا کیا مقصد ہے ؟

2-اور عام نمازوں کی اذان کا کیا حکم ہے؟ اگر وقت داخل ہوگیا لیکن اذان نہیں دی اور مسجد میں نماز ادا کر لی تو کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-جمعہ کی دونوں اذانیں  سنت مؤکدہ ہیں۔ اور سنت مؤکدہ عمل کے لحاظ سے واجب کی طرح ہی ہوتی  ہے۔ جمعہ کی جو اذان خطبہ سے پہلے ہوتی ہے یعنی دوسری آذان  اس کا مقصد تو وہی ہے جو دیگر نمازوں کی اذان کا  ہے  یعنی نماز کی اطلاع دینا، البتہ جو اذان وقت داخل ہونے کے بعد دی جاتی ہے  یعنی پہلی آذان، اس کا مقصد یہ  ہے کہ اس اذان کے بعد لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر جمعہ کی تیاری میں مشغول ہو جائیں ۔

2- عام نمازوں کی اذان کا بھی وہی حکم ہے جو نمبر ایک کے جواب میں جمعہ کی اذان کا بیان ہوا یعنی سنت مؤکدہ ہے۔ اگر  مسجد میں بغیر اذان کے نماز پڑھ لی تو نماز تو ہوجائے گی لیکن سنت  مؤکدہ کے چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔

فتاوی شامی (2/61)میں ہے

باب الأذان  ( هو ) لغة الإعلام ۔۔وهو سنة ) للرجال في مكان عال ( مؤكدة ) هي كالواجب في لحوق الإثم ( للفرائض ) الخمس قوله ( هي كالواجب ) بل أطلق بعضهم اسم الواجب عليه لقول محمد لو اجتمع أهل بلدة على تركه قاتلتهم عليه ولو تركه واحد ضربته وحبسته وعامة المشايخ على الأول والقتال عليه لما أنه من أعلام الدين في تركه استخفاف ظاهر به… ( قوله : للفرائض الخمس الخ ) دخلت الجمعة بحر وشمل حالة السفر والحضر والانفراد والجماعة.

نخب الأفكار فی شرح معانی الآثار (3/ 132)میں ہے

واختلف المذهب في أذان الجمعة أهو فرض أم سنة، فظاهر قول مالك في "الموطإ” أنه على الوجوب في الجماعات والمساجد۔۔ وقال صاحب "البدائع”: قد ذكر محمد ما يدل على وجوب الأذان فإنه قال: لو أن أهل بلدة اجتمعوا على ترك الأذان لقاتلتهم عليه ولو تركه واحدٌ ضربته وحبسته، وإنما يقاتل ويضرب ويحبس على ترك الواجب، وعامة مشايخنا قالوا: إنهما سنتان مؤكدتان

فتاوی شامی (3/41)میں ہےواختلفوا في المراد بالأذان الأول فقيل الأول باعتبار المشروعية وهو الذي بين يدي المنبر لأنه الذي كان أولا في زمنه عليه الصلاة والسلام وزمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس .والأصح أنه الأول باعتبار الوقت ، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال .ا هـ والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة

فتاوى ہنديہ (1/ 54)میں ہے

 ولا يكره تركهما لمن يصلي في المصر إذا وجد في المحلة ولا فرق بين الواحد والجماعة هكذا في التبيين والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ۔۔۔۔ولو صلى في بيته في قرية إن كان في القرية مسجد فيه أذان وإقامة فحكمه حكم من صلى في بيته في المصر وإن لم يكن فيها مسجد فحكمه حكم المسافر كذا في الشمني شرح النقاية

احسن الفتاوی (جلد نمبر 2 صفحہ نمبر281) میں ہےسوال: اگر اذان کے بغیر مسجد میں یا بیرون مسجد جماعت کی جائے تو نماز ہو جائے گی یا اس میں کچھ فساد آئے گا ؟

جواب :نماز تو ہو جاتی ہے لیکن سنت مؤکدہ ترک کرنے کا سخت گناہ ہوگا ،البتہ اگر اسی شہر کی کسی ایک مسجد میں اذان ہو گئی ہو اور ان لوگوں نے سنی ہو تو اذان ترک کرنے سے گناہگار نہ ہوں گے قال فى شرح التنوير وهو سنة ) للرجال في مكان عال (مؤكدة ) هي كالواجب في لحوق الإثم وقال ابن عابدين رحمه الله تعالی قال في النهر ولم أر حكم البلدة الواحدة إذا اتسعت أطرافها كمصر والظاهر أن أهل كل محلة سمعوا الأذان ولو من محلة أخرى يسقط عنهم لا إن لم يسمعوا

کفایت المفتی (جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 45 )میں ہے

فرض نماز کے لیے اذان کہنا سنت مؤکدہ ہے چونکہ یہ شعائر اسلام  سے ہے اس کے تارک کو گناہ بہت ہوگا بلکہ اگر کسی شہر والے  مصر ہوں تو فقہاء  ان سے جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved