• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جمعہ کی دوسری اذان خطیب کے سامنے کھڑے ہو کرد ینا

استفتاء

جمعہ کی دوسری اذان  مسجد میں امام صاحب کے سامنے کھڑے ہو کرد ینا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جمعہ کی دوسری اذان خطیب کے سامنے منبر کے قریب کھڑے ہو کر دینا سنت ہے۔

توجیہ: عام نمازوں کی اذان کا مقصد غائبین کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے مسجد کے اندر اذان دینے سے منع کیا گیا تھا کہ غائبین کو اطلاع نہیں ہو پاتی تھی اور اذان کا مقصد پورا نہیں ہو پاتا تھا۔ جبکہ جمعہ کی دوسری اذان کا مقصد حاضرین کو متنبہ کرنا ہوتا ہے تاکہ سب خطبے کی طرف متوجہ ہو جائیں لہذا اس کا مسجد میں دینا مسنون ہے۔

نوٹ: پہلے زمانے میں چونکہ لاؤڈ اسپیکر کا انتظام نہیں تھا اس لیے مسجد کے اندرونی حصے میں اذان کہنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا کیونکہ ایسی صورت میں اذان کی آواز عام طور سے لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی تھی ۔ اگر کراہت کی وجہ محض مسجد ہوتی تو مسجد کی چھت پر اذان کہنا بھی مکروہ ہوتا کیونکہ مسجد کی چھت بھی مسجد میں شامل ہے حالانکہ خود حدیث سے مسجد کی چھت پر اذان کہنا ثابت ہے۔ ہمارے دور میں چونکہ عموما اذان لاؤڈ سپیکر پر دی جاتی ہے اس لیے اب اذان چاہے اندرونی حصے میں دی جائے یا باہر دی جائے اس میں کچھ کراہت نہیں ہے۔

در مختار(3/38) میں ہے:

(ويؤذن) ثانيا (بين يديه) اي الخطيب.

البحر الرائق (2/274)میں ہے:

 (فاذا جلس على المنبر اذن بين يديه واقيم بعد الخطبة) بذلك جرى التوارث.

رد المحتار( 2/ 67) میں ہے:

وقال ابن سعد بالسند إلى أم زيد بن ثابت: كان بيتي أطول بيت حول المسجد فكان بلال يؤذن فوقه من أول ما أذن إلى أن بنى رسول الله صلى الله عليه و سلم مسجده فكان يؤذن بعد على ظهر المسجد و قد رفع له شيء فوق ظهره.

اعلاء السنن (8/ 87- 86) میں ہے:

و اعلم أن الأذان لا يكره في المسجد مطلقاً كما فهم بعضهم من بعض العبارات الفقهية و عمموه هذا الأذان بل مقيد بما إذا كان المقصود إعلام ناس غير حاضرين كما في رد المحتار و في السراج: و ينبغي للمؤذن أن يؤذن في موضع يكون أسمع للجيران و يرفع صوته و لا يجهد نفسه لأنه يتضرر … لكن في الجلابي: أنه يؤذن في المسجد …. فقوله (في المسجد) صريح في عدم كراهة الأذان في داخل المسجد و إنما هو خلاف أولى إذا مست الحاجة إلى الإعلان البالغ و هو المراد بالكراهة المنقولة في بعض الكتب، فافهم.

فتاوی محمودیہ  (8/300) میں ہے:

سوال: جمعہ میں اذان ثانی مسجد کے اندر ہونی چاہیے یا بیرون مسجد؟

جواب:اس اذان کا حال  اقامت کی طرح ہے یعنی یہ حاضرین مسجد کی اطلاع کے لئے ہے کہ اب خطبے کے لئے تیار ہو جاؤ نفل تسبیح تلاوت ختم کر دو پس یہ اذان خطیب کے مقابل پہلی صف میں یا نمازیوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے جس میں مناسب ہو کہ سب تک آواز پہنچ جائے مسجد ہی میں دی جائے یہی متوارث ہے۔

مسائل بہشتی زیور ( 1/151) میں ہے :

جمعہ کی اذان ثانی کو مسجد کے اندر خطیب کے سامنے کہنے کا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور سے تعامل چلا آرہا ہے کیونکہ اس میں صرف حاضرین (جو پہلی اذان سن کر حاضر ہو چکے ہیں ان )تک آواز پہچانا مقصود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved