• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کھانے میں اتنی کمی کردینا کہ جس سے کمزوری ہونے لگ جائے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مکرم و محترم مفتی صاحب دارالافتاء!اس مسئلہ پر خصوصی توجہ فرمائے کیونکہ اسوقت معاشرے میں یہ عمومی واقعات  پائے جارہے ہیں اور والدین بڑے پریشان ہیں۔فتوی جاری فرمائے اگر مناسب سمجھے تو نیٹ پر بھی جاری فرمادیں تاکہ پریشانی دور ہوسکے۔

بات  یہ ہے کہ اس وقت نوجوان بچیوں کو اپنے آپ کو سمارٹ بنانے کا اس قدر جنون واقع ہوچکا ہے کہ وہ روزانہ کھانے اور پینےمیں اس قدر کمی کرتی جارہی ہیں کہ اس سے وہ اپنے آپ کو بھوکا رکھنے سے سمارٹ رکھ سکتی ہیں۔

جس کی وجہ سے شوگر لیول بہت لو ہوجاتا ہےB.P لو ہوجاتا ہےاور اکثروں کو دیکھا جاتا ہے بیمارہوجاتی ہیں۔اورکھانا بھی بہت ہلکا پھلکا لیا جاتا ہے۔درخواست یہ ہے کہ چند ایسی کارگزاریاں بھی سامنے آئی ہیں  کہ بچی اسکول یا کالج سے آئی  اورB.Pاسقدر لو ہوچکا تھا کہ کمرے میں کپڑے بدلنے کے لئے گئی جب بہت دیر تک باہر نہیں آئی تو دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بےہوش پڑی تھی۔جب اس کو ہسپتال لے جایا گیا تو پتا چلا کافی دیر پہلے سے موت واقع ہوچکی ہے۔بازار میں کھڑے کھڑے اچانک گر گئی ساتھ والی لڑکی کے مطابق B.Pلو ہوگیا ہے۔

شریعت کی رو سے اگر کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں اور صرف اپنے آپ کو سمارٹ  بنانے کی جنونی کیفیت کے ساتھ کھائے نہیں ایسی حالت میں موت واقع ہونا کیا خودکشی کے ضمن میں نہیں آئےگا؟

جس طرح حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے کراچی سے یہ فتوی جاری فرمایا ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لئے اسمارٹ فون نیٹ کے ساتھ استعمال کرنااگر تنہائی میں اسکا استعمال غلط کیا جاتا ہے تو ایسا فون استعمال کرنا حرام ہے۔کیونکہ اس میں اتنا مضبوط ایمان ہی نہیں کہ تنہائی میں اسکو اگناہ سے روک سکے۔

آپ حضرات اس مسئلہ پر اچھی طرح غور و فکر فرمائیں آج گھروں میں خصوصی طور پر ماوں کو بہت پریشانی بنی ہوئی ہے۔ذرا سی صحت مند  بچی ہوجائے تو شادی کے لئےجب لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں تو فورا نقص نکالا جاتا ہے کہ لڑکی موٹی ہےحالانکہ صحت مند ہونا علیحدہ چیز ہے اور موٹا ہونا علیحدہ چیز ہے۔اور بچیوں کو صرف برگر پیزا  باربی کیو شوارما کولڈڈرنکس حالانکہ موٹاپے کا سب سے ذیادہ ذریعہ یہی چیزیں ہیں۔جس طرح آپ حضرات بہترسمجھتے ہوں یہ عمومی مسئلہ بہت سنگین   صورتحال کے ساتھ ہر گھر کا مسئلہ بن چکا ہے راہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کھانے میں اتنی کمی کرنا کہ بےہوشی تک نوبت آجائے  جائز نہیں ہے۔یہ جسم ہماری ملکیت نہیں کہ اسے جیسے چاہے رکہیں بلکہ اللہ تعلی کی امانت ہے جس کی حفاظت اور نگہداشت ہمارے ذمے ہے

مسائل بہشتی زیور (2/437)میں ہے:

کھانا کھانے کے پانچ درجے ہیں:

پہلا درجہ فرض کا ہے  یعنی اتنی مقدار کھانا فرض ہے کہ آدمی ہلاکت سے بچ جائے اور فرض نماز کھڑے ہوکر پڑھ سکے اور روزہ رکھ سکے ۔

دوسرا درجہ مندوب کا ہےیعنی فرض مقدار سے اس قدر زیادہ کھائے جس سے نوافل پڑھ سکےاور علم دین سیکھنے میں سہولت ہو اور دل میں اس کی نیت ہو۔

تنبیہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے مطابق کھانا کھانے کا ثواب بھی ملتا ہے۔

تیسرا درجہ مباح کا ہے  یعنی اس سے بھی زیادہ سیر ہونے تک کھائےاس غرض سے کہ  بدن  کی قوت  میں اضافہ ہواس میں نہ ثواب ہے نہ گناہ ہے اور اتنی حد  تک اخروی حساب بھی آسان ہوگابشرطیکہ طعام (کھانا)حلال ہو۔

چوتھا درجہ مکروہ کا ہےیعنی سیر ہونے کے باوجود کچھ زائد کھاناجس سے نقصان کا اندیشہ ہواور اگر یہ اس غرض سے ہو کہ کل  کےروزے میں تقویت رہے گی یا اس کے ہاتھ روکنے سے مہمان کھانے میں شرم محسوس کرےگااور وہ بھی ہاتھ روک لےگا تو مکروہ نہیں۔

پانچوا درجہ حرام کا ہے جو یہ ہے کہ سیری سے بھی اسقدر زیادہ کھائے کہ بدہضمی ہونے کا اندیشہ ہو۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved