• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

کتابت القرآن بالبول

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کسی اہل حدیث نے سوال کیا ہے کہ فتاویٰ شامی میں یہ لکھا ہوا ہے کہ خون اور پیشاب سےسورۃ فاتحہ  لکھنا جائز ہے اور اس پر فتوی بھی ہے۔مفتیان کرام سے عرض ہے کہ اس کے بارے میں وضاحت فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شامی میں جو مسئلہ مذکور ہے وہ سائل نے پورا ذکر نہیں کیا بلکہ ادھورا  ذکر کیا ہے پورا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی انسان کی ناک سے خون بہنے لگ جائے اور وہ بند نہ ہو یہاں تک کہ اس آدمی کے مرنے کا خوف پیدا ہوجائے اور یہ بات یقینی طور پر یا غالب گمان سے معلوم ہو کہ اگر سورہ فاتحہ یا یا سورہ اخلاص نکسیر کے خون سے اس انسان کی پیشانی پر لکھی  جائے تو نکسیر کا خون بند ہوجائے گا تو اس لکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایک ضعیف قول  یہ بھی ہے کہ اس لکھنے کی اجازت دی جائے گی جیسا کہ پیاسے کیلئے شراب پینے کی اور بھو کے لیے مردار کھانے کی اجازت دی گئی ہے  اور اسی پر فتویٰ ہے (یعنی پیاسا جب پیاس کی وجہ سے مرنے کے قریب ہو اور بھوکا بھوک کی وجہ سے جب مرنے کے قریب ہو اورپیاس بھجانے  کے لیے شراب کے علاوہ اوربھوک مٹانے کے لیے مردار کے علاوہ کچھ اور نہ ہو توفتویٰ اس پر ہے کہ ایسی حالت میں شراب اور مردار کا استعمال جائز ہے۔) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ فتاویٰ شامی میں خون یا پیشاب سے سورہ فاتحہ یا سورہ اخلاص لکھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اجازت والے قول کوضعیف اورکمزور  قرار دیا ہے اور یہ بات کہ ” اس پر فتویٰ ہے” اس کا تعلق بھوک یا پیاس کی وجہ سے مرنے کا خوف ہو تو شراب  یا مردار کےاستعمال کی اجازت سے ہے۔

مطلب في التداوي بالمحرم ( قوله اختلف في التداوي بالمحرم ) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر .

وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام { إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم } كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة ، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال : لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء ، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به ، لكن لم ينقل وهذا ؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع من البحر.

وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة ، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر : إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى

أقول : وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال ، لقول الإمام : لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل ( قوله وظاهر المذهب المنع ) محمول على المظنون كما علمته ( قوله لكن نقل المصنف إلخ ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع ، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك .

ونص ما في الحاوي القدسي : إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له فيه ؛ وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى

 ( قوله ولم يعلم دواء آخر ) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي ، إلا أنه يفاد من قوله كما رخص إلخ ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط .قال : ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين ،

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved