- فتوی نمبر: 25-122
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
(۱) میرے کزن نے سوال پوچھا ہے کہ "خون جو کہ حرام اور ناپاک ہے تو کیاکسی کو ناپاک چیز دینا جائز ہے یعنی خون دینا جائز ہے؟
(۲)نیزکیا محرم میں کالے کپڑے پہننا جائز ہے، اور محرم کے علاوہ کالے کپڑے پہننا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(۱)خون جب بدن سے نکال لیاجائے تو وہ ناپاک ہےاسی وجہ سے عام حالات میں خون دوسرے کے بدن میں منتقل کرنا حرام ہے مگر انتہائی مجبوری میں یعنی جب کسی مریض کی ہلاکت کا خدشہ ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں اس کی جان بچانے کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ ہو تو خون دینا جائز ہے۔ اور جب مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو لیکن ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیئے بغیر مریض کی صت حٹحت کاامکان نہ ہوتو اس وقت بھی خون دینا جائز ہے۔
(۲) جن دنوں میں مثلاً محرم کے دنوں میں یا جس علاقے میں شیعوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہو ان دنوں میں یا اس علاقے میں مشابہت کی وجہ سےکالے کپڑے پہننا جائز نہیں، اور جن دنوں میں یا جس علاقے میں مشابہت نہ ہو ان دنوں میں یا اس علاقے میں کالے کپڑے پہننا جائز ہے۔
جواہر الفقہ(45/7)میں ہے:خون انسان کا جزو ہے اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس ہے اور ناپاک بھی ہے ، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ عام حالات میں ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل کرنا حرام ہو ، اجزائے انسانی کی تکریم بھی اس کی مقتضی ہے اور اس کا نجاست غلیظہ ہونا بھی حرمت ہی کا مقتضی ہے…… لیکن اضطراری حالات اور عام معالجات اور دواء میں شریعت اسلام کی دی ہوئی سہولتوں میں غور کرنے سے امور ذیل سامنے آتے ہیں ۔اول یہ کہ خون کے استعمال کی حرمت دو وجہ سے ہو سکتی ہے ، ایک یہ کہ خون انسان کا جز ہے، اور جزوانسان کا استعمال جائز نہیں ۔
دوم یہ کہ خون نجس اور حرام ہے۔
جہاں تک پہلی وجہ یعنی اس کے جزوانسان ہونے کاتعلق ہےاس میں غور کرنے سےیہ بات واضح ہوتی ہے کہ خون اگرچہ جزو انسانی ہے مگر اس کو دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لئے اعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ انجکشن کے ذریعہ خون نکال کر دوسرے بدن میں ڈالا جاتا ہے اس لئے اس حیثیت سے اس کی مثال انسانی دودھ کی سی ہوگئی جو بدن انسان سے بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے نکلتا ہے اور دوسرے انسان کے بدن کا جزو بنتا ہے اور شریعت اسلام نے بچہ کی ضرورت كےپیش نظر انسانی دودھ ہی کو اس کی غذا قرار دیا ہے ،بچوں کے علاوہ بڑوں کے لئے بھی دواء علاج کے لئے عورت کے دودھ کو فقہاء نے جائز قرار دیا ہے۔
عالمگیری میں ہے (ولا باس بان يسعط الرجل بلبن المرأة ويشربه للدواء)اس لئے جزو انسانی ہونے کی حیثیت سے اگر خون كو دودھ پر قیاس کیا جائے تو کچھ بعید قیاس نہیں لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شریعت اسلام نے عورت کے دودھ کو جزو انسانی ہونے کے باوجود ضرورت کی بنا پر بچوں کے لئے جائز کردیا ہے اسی طرح ضرورت کی بنا پر خون دینا بھی جائز ہو۔
خون کا استعمال حرام ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خون نا پاک ہے اب یہ تداوی بالحرام میں داخل ہوگا اور اس کی بنا پر مریض کو خون دینے کے حکم میں یہ تفصیل ہے۔
(۱)جب خون دینے کی ضرورت ہو، یعنی کسی مریض کی ہلاکت کا خطرہ ہواور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں اس کی جان بچنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو خون دینا جائز ہے۔
(۲)جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو لیکن ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیئے بغیرصحت کا امکان نہ ہو اس وقت بھی خون دینا جائز ہے۔
(۳) جب خون دینے سے محض منفعت یا زینت مقصود ہو یعنی جب ہلاکت یا مرض کی طوالت کا اندیشہ نہ ہو بلکہ محض قوت برھانا یا حسن میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں خون دینا ہرگز جائز نہیں۔
مریض و معالج کے اسلامی احکام (385) میں ہے:خون کا استعمال حرام ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خون نا پاک ہے اب یہ تداوی بالحرام میں داخل ہوگا اور اس کی بنا پر مریض کو خون دینے کے حکم میں یہ تفصیل ہے۔
(۱)جب خون دینے کی مجبوری ہو، یعنی کسی مریض کی ہلاکت کا خطرہ ہواور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں اس کی جان بچنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہ ہو تو خون دینا جائز ہے۔
(۲)جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو لیکن ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیئے بغیرصحت کا امکان نہ ہو اس وقت بھی خون دینا جائز ہے۔
(۳)جب خون نہ دینے کی گنجائش ہو تو اس سے اجتناب بہتر ہے۔لما فى الهنديه وان قال طبيب يتعجل شفاءك فيه وجهان(۴) جب خون دینے سے محض منفعت یا زینت مقصود ہو یعنی جب ہلاکت یا مرض کی طوالت کا اندیشہ نہ ہو بلکہ محض قوت برھانا یا حسن میں اضافہ کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں خون دینا ہرگز جائز نہیں۔
فتاوی محمودیہ (329/18)میں ہے:
سوال:شرعا ایک انسان کا خون دوسرے انسان کے جسم میں بطور علاج داخل کیا جاسکتا ہے یا نہیں جبکہ ڈاکٹروں کی رائے میں مریض کی جان کا بچنا مشکل ہو رہی ہو؟جواب: ایک انسان کا خون دوسرے انسان کے جسم میں داخل نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ اس میں جزء انسانی سے انتفاع لازم آتا ہے اور جزء انسانی سے انتفاع حرام ہے،البتہ اگر اس کے بغیر بچنا دشوار ہو تو بقدر ضرورت اس کی اجازت ہوگی۔فتاوی بزازیہ(431/3) میں ہے:وقص الشارب امارة اهل السنة والجماعة ، وتركه امارة الرفض وكذا لبس السوادفتاوی محمودیہ(265/19)میں ہے:سوال: مسلمان مرد کو کالا تہبند باندھنا یا کالاکرتا پہننا یا کالی واسکٹ پہننا کیسا ہے؟جواب: درست ہے، مگر جب کسی جماعت فساق یا کفار کا شعار ہو جیسا کہ محرم میں روافض کا شعار ہے تو اس سے بچنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved