• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خون لینا دینا

استفتاء

عبد اللہ ہم دونوں دوست عالم ہیں۔ ہم علاقے کے چند لوگوں کو ساتھ  ملا کر علاقے کی خدمت کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس ۔۔۔۔ اکٹھا کر کے ضرورت مندوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ یعنی بہت سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ کہ جو خون ۔۔۔۔ دے سکے جو لینا چاہے وہ لے سکے۔ ہم ایک واسطہ بننا چاہتے ہیں۔ خون دینے  اور لینے کی شرعی حیثیت سے ہمیں اگاہ کریں؟ اس کے اخراجات چندے سے پورے کیے جاسکتے ہیں یا نہیں؟ ( مثلاً خون دینے والے کو جوس پلانا خون لینے اور دینے والے  ۔۔۔۔اس رقم کے اخراجات اس میں ہوں)  اور اگر کام  بہت زیادہ ہو تو سرگرمی کے ساتھ کام کرنے والا اپنے اوپر معروف طریقہ سے ۔۔۔۔ خرچ کر سکتا ہے؟ اور وہ چندہ کس قسم کا ہونا چاہی؟ اور اگر اس سلسلے میں کوئی کتاب  ہو اس سے بھی ہمیں اگاہ کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ضرورت کے وقت خون لینا اور دینا جائز ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ” مریض و معالج کے اسلامی احکام” مؤلف ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب میں انتقال خون کے متعلق مضمون دیکھ لیا جائے۔

چندے کی رقم سے اخراجات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ حضور ﷺ سے مختلف مواقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم سے چندہ لینا احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر لیکن یہ یاد رہے کہ یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے ، کیونکہ چندہ لینا آسان ہے اور اس کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا مشکل ہے۔

في البداية و النهاية في قصة غزوة تبوك: وحض أهل العنى على النفقة و الحملان في سبيل الله. (5/ 4

خود اس چندے میں سے اپنے لیے خرچ لینا ہو تو اس کے لیے سنجیدہ و تجربہ کار آدمیوں کی خواہ وہ  دو  ہی ہوں، کمیٹی بنائیں اور جو کام آپ لوگ کریں گے اس کے بقدر معاوضہ طے کروائیں اور ادارے کے آمد و خرچ کا پورا حساب رکھیں۔ چندہ لینے سے پہلے لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ہم اس مقصد کے لیے چندہ کر رہے ہیں۔ اگر زکوٰة و صدقات کی رقم بھی ہو تو جو کوئی زکوٰة کا مستحق ہو اس کو زکوٰة و صدقہ میں سے دیا جا سکتا ہے دوسرے کو نہیں۔ مثلاً کوئی مستحق زکوٰة خوان دینے کے لیے  آئے  تو اسے زکوٰة و صدقہ میں سے جوس وغیرہ پلایا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved