• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خفیہ نکاح

  • فتوی نمبر: 8-67
  • تاریخ: 31 اکتوبر 2015

استفتاء

السلام علیکم: میری عمر 23 سال ہے میری ایک لڑکی سے منگنی ہوئی ہے، لیکن ہمارے والدین کچھ معقول عذر کی بنا پر ہماری شادی 2 سال  بعد کرنے پر آمادہ ہیں، اس سے پہلے نہیں۔ میں والدین سے اس سلسلے میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ میں اس لڑکی سے بغیر نکاح کے بات چیت نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ ایسا کرنا حلال نہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میں اس سے پوری شرائط کے ساتھ زبانی نکاح کر لوں ۔ یہ محض گناہ سے بچنے کے لئے ہے مجھے آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خفیہ نکاح کرنے میں متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے خفیہ نکاح کرنا مکروہ اور نا جائز ہے۔

1۔ خفیہ نکاح عام طور سے لڑکی اپنے ولی (سرپرست)کی اجازت کے بغیر کرتی ہے۔ جو کہ عام حالات میں لڑکی کے لیے ایک بے حیائی کی بات ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

قوله: (ولاية ندب) أي يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة۔ 4/ 149

2۔ نکاح کے بعد بعض اوقات منگنی ٹوٹ جاتی ہے اور لڑکا طلاق نہیں دیتا اور ماں باپ اسی حال میں آگے لڑکی کا نکاح کر دیتے  ہیں ۔

3۔ بعض اوقات نوبت ہمبستری تک پہنچ جاتی ہے اور حمل ٹھہر جاتا ہےپھر اس حمل کو آگے چلانا مکن نہیں ہوتا اور اس کو ضائع کرایا جاتا ہے ۔

4۔ اس  ساری صورت حال کا علم اگر لڑکی کے سرپرستوں کو ہو جائے تو بعض اوقات نوبت قتل وغارت تک پہنچ جاتی ہے ۔

”اعلنوا النكاح  ولو بالدفوف”   نكاح ميں شہرت اگرچہ شرط صحت نہیں لیکن شرعاً اس کے فی الجملہ مطلوب ہونے میں کلام نہیں ۔  خفیہ نکاح میں یہ مطلوب بھی بغیر کسی وجہ کہ نظر انداز ہوتا ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved