• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خلع نامہ پر شوہر کے دستخط کے چھ سال بعد طلاق کے نوٹس بھیجنا

استفتاء

میں زینب بنت زید  ہوں ۔ خالد جو کہ میرا شوہر تھا چھ سال پہلے 2019 میں گھریلو                  ناچاقیوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے  میں نے علیحدگی اختیار کر کے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کیا اور تین حاضریوں کے بعد دونوں کی رضامندی سے خلع ہوئی جس  پر  خالد  نے دستخط کیے اور یہ الفاظ ادا کیے کہ شکر اللہ کا کہ جان چھوٹی ۔ ہماری دو بیٹیاں بھی ہیں جو اس خلع کے بعد والد  خالد کے حوالے کی گئیں تاکہ وہ ان کی پرورش کر سکے تقریبا تین سال کے بعد  خالد نے کہنا شروع کر دیا کہ واپس آجاؤ ۔ ان تین سالوں میں دونوں گھروں کا کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔خالدکے واپس آنے کی خواہش پر یہ کہا گیا کہ اب تو خلع ہو چکی ہے واپسی نہیں ہو سکتی پھر خاموشی ہو گئی ۔ اب چھ سال کے بعد  خالد  نے یونین کونسل سے طلاق کے دو نوٹس بھجوا دیے اور اب جب تیسرے نوٹس کا وقت قریب آیا تو ملنے کا کہا کہ گھر آکر اس مسئلے کو سلجھانا چاہتا ہوں کچھ دن پہلے وہ اصرار کرنے پر گھر آیا اور کہتا ہے کہ کورٹ کے خلع کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ   اس دستخط کی جو ہم نے کیے تھے ۔ اگر آپ لوگ یو سی سے ڈگری نکلواتے تو اس خلع کی حیثیت ہوتی۔میں زینب آپ سے گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اس مسئلے کے بارے میں وضاحت کریں اور خلع ہوئی یا نہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

شوہر کا بیان :

 میں نے خلع  کے پیپر پر دستخط کر دیے تھے البتہ اس کے علاوہ کبھی طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے بعد میں تینوں نوٹس بھیج دیے ۔ آخری نوٹس ابھی 16 تاریخ کو بھیجا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  عدالتی خلع شرعا ً  درست تھا   جس کی وجہ سے  بیوی پر  ایک بائنہ طلاق  واقع ہوگئی تھی اور چونکہ شوہر کے طلاق کے نوٹس بھجوانے سے پہلے بیوی کی عدت بھی گذر گئی ہے اس لیے ان کی وجہ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لہٰذا میاں بیوی اگر  دوبارہ  اکٹھے  رہنا چاہیں  تو  کم از کم دو گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں)  کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ  نکاح کرکے  رہ سکتے ہیں ۔واضح رہے کہ آئندہ  شوہر  کے پاس دو طلاقوں کا حق ہوگا  ۔

توجیہ :  بیوی کے مطالبہ پر جب شوہر رضامندی   سے خلع نامہ پر دستخط کردے  تو  شرعا ً یہ خلع معتبر ہے جس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔مذکورہ صورت میں  عدالتی خلع کے چھ سال بعد جب شوہر نے بیوی کو طلاق کے نوٹس بھیجے تو چونکہ  اس وقت بیوی کی عدت گزر چکی  تھی  جبکہ  طلاق کے لیے بیوی کا نکاح میں یا عدتِ نکاح میں ہونا ضروری ہے اس لیے طلاق کے  کسی بھی نوٹس  سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بدائع الصنائع (3/229) میں ہے:

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

البحرالرائق (4/120) میں ہے:

(قوله الواقع به، وبالطلاق على مال طلاق بائن) أي بالخلع الشرعي أما الخلع فقوله عليه الصلاة والسلام الخلع تطليقة بائنة، ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات، والواقع بالكناية بائن.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر لأن ما دون الثلاثة وإن كان بائنا فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية.

المحیط البرہانی (5/59) میں ہے:

قال علماؤنا رحمهم الله: الخلع طلاق بائن ينتقص به من عدد الطلاق، به ورد الأثر عن رسول الله صلى الله عليه وسلّم وعن عمر وعلي وابن مسعود رضي الله عنهم .

رد المحتار                    (3/ 230)  میں ہے  :

(قوله ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة أو عن فسخ بتفريق لإباء أحدهما عن الإسلام أو بارتداد أحدهما.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved