• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)کن اوقات میں قضا نماز پڑھ سکتے ہیں؟(2)عصر کے بعد احرام کے دو نفل پڑھنا

استفتاء

(1)کسی بھی فرض نماز کی قضا کس وقت پڑھ سکتے ہیں؟(2)کیا ہم فجر اور عصر کے بعد فرض نماز کی قضا پڑھ سکتے ہیں؟(3)اگر کسی نے عصر کے بعد مسجد عائشہ  سے عمرہ کرنے جانا ہو تو عصر کے بعد مسجد عائشہ میں احرام والے نفل پڑھ سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)تین مکروہ  اوقات کے علاو ہ ہر وقت پڑھ سکتے ہیں۔ تین مکروہ اوقات یہ ہیں (۱)  طلوع آفتاب سے لے کر تقریباً 10 منٹ تک (۲)غروب آفتاب سے تقریباً 10 منٹ پہلے تک (۳)  زوال (ظہر کا وقت داخل ہونے) سے پہلے تقریباً  پونا گھنٹہ تک۔

(2)فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے پہلے قضا نماز پڑھ سکتے ہیں، اسی طرح عصرکے بعد   بھی قضا نماز پڑھ سکتے ہیں البتہ جب سورج غروب ہونے میں تقریباً 10 منٹ رہ جائیں اس وقت کوئی  قضا نماز  نہیں پڑھ سکتے  البتہ اسی دن کی عصر کی نماز اگر ابھی تک نہ پڑھی ہو تو وہ پڑھ سکتے ہیں۔

(3) عصر کی نماز کے بعد احرام کے نفل بھی نہیں پڑھ سکتے۔

فتاویٰ ہندیہ (112/1) میں ہے:

ثلاث ‌ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب…. ولا يجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي

در مختار مع رد المحتار(633,634/2) میں ہے:

وجميع ‌أوقات ‌العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية

قال ابن عابدين:(قوله إلا الثلاثة المنهية) وهي الطلوع والاستواء والغروب

تنویر الابصار مع درالمختار(37,38/2) میں ہے:

(وكره) تحريما، ‌وكل ‌ما ‌لا ‌يجوز مكروه (صلاة) مطلقا (ولو) قضاء أو واجبة أو نفلا أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر.قنية (مع شروق) إلا العوام فلا يمنعون من فعلها لانهم يتركونها.والاداء الجائز عند البعض أولى من الترك كما في القنية وغيرها (واستواء)

قال ابن عابدين:(قوله: واستواء) ‌التعبير ‌به ‌أولى من التعبير بوقت الزوال؛ لأن وقت الزوال لا تكره فيه الصلاة إجماعا بحر عن الحلية: أي لأنه يدخل به وقت الظهر كما مر. وفي شرح النقاية للبرجندي: وقد وقع في عبارات الفقهاء أن الوقت المكروه هو عند انتصاف النهار إلى أن تزول الشمس ولا يخفى أن زوال الشمس إنما هو عقيب انتصاف النهار بلا فصل، وفي هذا القدر من الزمان لا يمكن أداء صلاة فيه، فلعل أنه لا تجوز الصلاة بحيث يقع جزء منها في هذا الزمان، أو المراد بالنهار هو النهار الشرعي وهو من أول طلوع الصبح إلى غروب الشمس، وعلى هذا يكون نصف النهار قبل الزوال بزمان يعتد به. اهـ

البنایۃ شرح الہدایۃ (2/ 55) میں ہے:

«وفي  المبسوط والمحيط ” الأوقات التي تكره فيها الصلاة خمسة. ثلاثة منها لا يصلي فيها أحد الصلاة: عند طلوع الشمس إلى أن تبيض، وعند زوالها، وعند غروبها إلا عصر يومه، ولا تتطوع بعد طلوع الفجر إلا بركعتيه إلى أن ترتفع الشمس، ولا يتطوع ‌بعد ‌صلاة ‌العصر.

البحرا لرائق (345/2) میں ہے:

(قوله وصل ركعتين) أي على وجه السنية بعد اللبس والتطيب، لأنه عليه السلام صلاهما كما في الصحيحين ‌ولا ‌يصليهما ‌في ‌الوقت ‌المكروه، وتجزئه المكتوبة كتحية المسجد ثم ينوي بقلبه الدخول في الحج، ويقول بلسانه مطابقا لجنانه اللهم إني أريد الحج فيسره لي وتقبله مني.

امداد المفتین(2/265) میں ہے:

الجواب:عصر کے بعد جب آفتاب میں زردی آجاوے اور طلوع آفتاب کے وقت آفتاب بلند ہونے سے پہلے اور زوال کے وقت مطلقا نماز پڑھنا اور سجدہ کرنا ناجائز ہے ہدایہ میں ہے:

لا تجوز الصلاة ‌عند ‌طلوع الشمس ولا عند قيامها في الظهيرة ولا عند غروبها ” لحديث عقبة بن عامر رضي الله عنه قال ثلاثة أوقات نهانا رسول الله عليه الصلاة والسلام أن نصلي فيها وأن نقبر فيها موتانا ‌عند ‌طلوع الشمس حتى ترتفع وعند زوالها حتى تزول وحين تضيف للغروب حتى تغرب اور بعد نماز صبح طلوع آفتاب سے پہلے اور بعد عصر غروب سے پہلے نفل پڑھنا مکروہ ہے مگر قضاء وغیرہ پڑھ سکتے ہیں كذا فى الهداية۔

امداد الاحکام(1/407) میں ہے:

نماز عیدین کا مستحب وقت بحساب گھنٹہ ومنٹ کے طلوع سے کس قدر بعد شروع ہوتا ہے اور کتنی دیر رہتا ہے …………………….. طلوع آفتاب سے دس منٹ کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور نصف النہار تک رہتا ہے۔

امداد الاحکام(1/413) میں ہے:

اور وقت مستحب کی انتہاء اصفرارِ شمس تک ہے یعنی دھوپ زرد ہوجانے تک تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہے، اور اس کا تخمینہ کبھی احقر نے تو کیا نہیں مگر مولانا یحیٰ صاحب  کاندھلوی نے حضرت گنگوہیؒ کا قول نقل کیا تھا کہ غروب سے صرف دس منٹ پہلے دھوپ زرد ہوتی ہے خود بھی اس کا تجربہ کرلیا جاوے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved