- فتوی نمبر: 7-26
- تاریخ: 08 ستمبر 2014
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
میں نے تقریبا پانچ چھ سال پہلے ایک پلاٹ خریدا اور اسی پر دو عدد مکانات اس ارادے سے بنائے کہ ان کو بیچ کر مزید پلاٹ خریدا جائے، لہذا اس پر بھی مکان بنا کر فروخت کروں گا، مذکورہ دونوں پلاٹ سات آٹھ ماہ تک فروخت نہیں ہوئے بلکہ خالی پڑے رہے، اس کے بعد دونوں کو کرایہ پر چڑھا دیا گیا۔ اب مسئلہ ہے کہ
1۔ آیا ان مکانات کی مالیت زکوٰہ کے نصاب میں شامل ہو گی؟ اور مال زکوٰۃ میں ان کی موجودہ قیمت شامل کی جائے گی یا نہیں؟
گذشتہ ادا کی ہوئی زکوٰۃ کو آئندہ سالوں کے لیے شمار کرنا
2۔ اگر شری طور پر ان کی قیمت مال زکوٰۃ میں شامل نہیں ہو گی تو اب تک جو زکوٰۃ ادا کی گئی ہے وہ صدقہ شمار ہو گی یا کچھ اور؟
زکوٰۃ کے حساب کتاب میں سستی برتنا
3۔ ہر سال سستی کی وجہ سے زکوٰۃ کا مکمل حساب یعنی سو فیصد درست نہیں کیا جا سکا، البتہ مال زکوٰۃ اور دی جانے والی زکوٰۃ اندازے سے دیتا ہوں، اگر کچھ فرق رہ جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟
وضاحت: جب مکان کرایہ پر چڑھایا اس وقت یہ نیت تھی کہ پلاٹ بیچ دوں گا، مگر جب دو چار ماہ کرایہ وصول کیا تو یہ طے کر لیا کہ اب یہ بیچنا نہیں ہے بلکہ کرایہ پر ہی رکھنا ہے، بعد میں دو پارٹیاں خریدنے کے لیے بھی آئیں ان سے یہ کہہ دیا کہ یہ اب بیچنا نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں جب تک ان مکانات کو فروخت کرنے کی نیت تھی تب تک ان کی قیمت پر زکوٰۃ تھی، البتہ جس وقت سے بیچنے کا ارادہ ختم کر دیا، اس وقت سے ان مکانات کی قیمت پر زکوٰہ نہ آئے گی۔
2۔ جس وقت سے ان مکانات پر زکوٰۃ نہیں تھی اور ادا کر دی گئی اس کو اگلے سالوں کی زکوٰۃ سے منہا کر دیا جائے۔
3۔ اب حساب لگا لیں کہ آپ نے زکوٰۃ کم دی ہے یا زیادہ؟ اگر کم دی ہے تو اتنی مقدار اور نکال دیں، اگر زیادہ نکال دی ہے تو اگلے سال کی زکوٰۃ میں سے اس کا حساب لگا سکتے ہیں۔ اگر حساب لگانا مشکل ہے تو اتنی زکوٰۃ دیدیں جس سے دل کو تسلی ہو جائے کہ پوری زکوٰۃ ادا کر دی ہو گی۔
(لا يبقی للتجارة ما) أي عبد مثلاً اشتراه لها فنوی بعد ذلك خدمته. (الدر المختار: 3/ 227)
رجل له أربع مأة درهم فظن أن عنده خمس مأة فأدی زكاة خمس مأة ثم علمه فله أن يحسب
الزيادة للسنة الثانية. (الهندية: 1/ 176) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved