• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کسی کی جگہ میں درخت لگانے کا حکم

استفتاء

2011 میں میرے والد صاحب  خالد کو پاکستانی فوج کی طرف سے تھل ضلع بھکر کے علاقہ میں 20 ایکڑ غیر آباد جگہ ریت کے ٹیلے کی صورت میں ، آباد کرنے کے لیے الاٹ ہوئی۔ اسی دوران ایک اور شخص  زید  کو بھی فوج کی طرف سے 20 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی۔ دونوں کی زمین ساتھ ساتھ تھیں اور شروع میں بالکل ریت کے ٹیلے کی صورت میں تھی۔ یہ جگہ اس سے پہلے سرکاری جنگل تھا جو بعد میں فوجیوں کو فوج نے اپنے مخصوص معیار کے مطابق الاٹ کیا۔ دونوں ہمسایوں نے اپنی زمین پر کھگل  نامی درخت لگانے  شروع کیے۔ اس درخت کو اردو میں فراش بھی کہتے ہیں۔ یہ درخت پھل دار نہیں ہو تا لیکن اس کی لکڑ ی فیکٹریوں میں ایندھن اور لکڑی کے تختے بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ فیکڑی والے یہ لکڑ ی اچھے داموں پر زمین دار سے خریدتے ہیں۔ اس درخت کا کوئی خاص سایہ بھی نہیں ہو تا لیکن اس کی سفیدہ  نامی درخت کی طرح لمبی لمبی اور اونچی شاخیں ہوتی ہیں۔ پتے نوک دار ہوتے ہیں۔ یہ عموما بارش کے پانی پر پلتا ہے لیکن شروع میں اس کی قلمیں لگانی پڑتی ہیں اور پہلے سال اس کو خود پانی دینا پڑ تا ہے ۔ لیکن پہلے سال کے بعد اس پر کوئی خرچہ نہیں ہوتا ہے۔ پہلے سال کبھی کبھار اس پر سپرے بھی کرنا پڑتا ہے جو کہ اتنا مہنگا نہیں ہوتا۔ 1000 روپے کی سپرے کی بوتل 200 در ختوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بھیڑ بکریاں بھی اس درخت کو نہیں کھاتیں اس لیے ان سے بھی انہیں بچانے کی نوبت نہیں آتی۔

یہ درخت پہلی بار لگانے کے بعد چار پانچ سال میں جو ان ہوتا ہے اور کاٹنے کے قابل ہوتا ہے۔ پہلی بار کاٹنے کے بعد اسکی دو دو اور تین تین اضافی شاخیں نکلتی ہی٫ں جس سے درخت کا وزن زیادہ ہوتا جاتا ہے۔

زمین الاٹ ہونے کے تقریبا10 سال بعد جب زمین کی پیمائش کی گئی تو میرے والد صاحب  خالد اور زیدد صاحب کی حدود پر کچھ درخت ، میرے والد کی طرف آگئے۔ زید صاحب کے مطابق یہ کوئی 25 سے 30 درخت ہیں۔ زمین کی اس حد کی لمبائی 1990 فٹ ہے۔ کھگل درخت جب جوان ہوتا ہے تو دونوں طرف تقریبا بیس بیس فٹ زمین ڈھانپ لیتا ہے اور وہاں پر کوئی اور فصل لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ یعنی ان درختوں نے تقریبا ایک ایکڑ جگہ کو ڈھانپا ہوا ہے۔

زید  صاحب کا کہنا ہے کہ یہ درخت چونکہ ہم نے لاشعوری میں غیر دانستہ طور پر  خالدصاحب کی حدود میں لگائے تھے ان درختوں کو پانی ہم نے دیا ہے اور ان کی دیکھ بھال ہم نے کی ہے اس لیئے یہ درخت کا ٹنے کے حق دار ہم ہیں۔

خالد صاحب کے ورثاء کا موقف ہے کہ چونکہ پچھلے دس سالوں میں  زید صاحب نے دوبار در خت کٹوا لیے ہیں اس لیے اب تیسری بار درخت پھوٹنے پر وہ ان درختوں کے حق دار نہیں۔ اس کے علاوہ دس سال  زید صاحب کے در ختوں  کےلیے ہماری زمین استعمال  ہوئی ہے اس لیئے ہم اس استعمال شدہ زمین کے دس سال کے کرایہ کے بھی دعویدار ہیں۔ کیونکہ ہم دس سال اس زمین کو اپنے استعمال میں نہیں لا سکے اور  زید  صاحب کے درخت اس زمین پر پلتے رہے۔

زید صاحب کا موقف ہے کہ ہم نے دوبار نہیں بلکہ صرف ایک بار در خت کٹوائے تھے، ہمیں ایک بار مزید در خت کاٹنے دیئے جائیں اور جڑ سمیت کا ٹنے دیئے جائیں کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات اب آئی ہے کہ زمین جس پر درخت لگائے گئے تھے، اس زمین کے مالک ، اصل میں  خالد صاحب تھے۔

خالد  صاحب کے ورثاء کا کہنا ہے کہ  زید  صاحب کو درخت لگانے کے 5 سے 6 سال بعد ہی پتہ لگ گیا تھا کہ جس زمین پر انہوں نے درخت لگوائے ہیں وہ زمین ان کی نہیں ہے  بلکہ ان کے ہمسائے  خالد  کی ہے۔ لیکن انہوں نے اس علم کو  چھپا کر رکھا تا کہ لاعلمی کا بہانہ بناکر ہر تین چار سال بعد  زید  صاحب کے بندے درخت کاٹتے رہیں ۔  خالد صاحب کے بندوں کا دعویٰ ہے کہ رقبہ کی  حدود کے نشان بھی  زید صاحب کے بندوں نے دانستہ طور پر مسخ کر وادیئے ہیں تا کہ حدود واضح نہ ہو سکے اور  زید  کے بندوں کو درخت کاٹنے سے روکا نہ جاسکے۔

زید صاحب اسوقت بڑھاپے کی وجہ سے ذہنی طور پر کچھ کمزور نظر آتے ہیں اور انہیں کچھ خاص یاد نہیں کہ ان کی زمین کی  حدود کے نشان کہاں لگائے تھے۔ خالد صاحب کے نمائندوں اور زید  صاحب کے نمائندوں نے اپنے اپنے طور پر زمین کی پیمائش کی تور قبہ کی حدود پر لگے درخت  خالد  صاحب کے ورثاء کی طرف آگئے۔ اس بات کو اب دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ زمین جس پر درخت کھڑے ہیں وہ  خالد  صاحب کے ورثاء کی ہی ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ  زید  صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے درخت صرف ایک بار کٹوائے ہیں جبکہ  خالد  صاحب کے ورثاء اور درختوں کے ماہر کہتے ہیں کے یہ درخت پچھلے 13 سالوں میں دو بار کاٹے جاچکے ہیں۔ زید صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے علم میں یہ بات اب آئی ہے کہ زمین  خالد صاحب کے ورثاء کی ہے اس لیئے ہمیں ایک بار پھر آخری بار درخت کاٹنے دیئے جائیں اور جڑسے کاٹنے دیئے جائیں۔  خالد صاحب کے ورثاء کا کہنا ہے کہ  زید نے اگر دو نہیں تو کم از کم ایک بار در خت کٹوا کر جو بیچے ہیں اس سے انہوں نے درخت لگوانے میں جو اخراجات کیے تھے وہ بآسانی وصول کر چکے ہیں، اب وہ مزید درختوں کی قیمت کے حق دار نہیں ہیں۔

تھل کے علاقے میں عرف یہ ہے کہ جب کوئی غلطی سے درخت اپنے ہمسائے کی حدود میں لگا دیتا ہے تو اس کو پہلی بار اجازت دی جاتی ہے کہ وہ یہ درخت کٹوالے لیکن جب دوسری بار یہ درخت پھوٹ کر جوان ہوتے ہیں تو یہ در خت اس کے ہوتے  ہیں جس کی زمین میں لگے ہوتے ہیں۔ لیکن  زید  صاحب اگر دو بار نہیں تو کم از کم ایک بار در خت کٹوا کر بیچ چکے ہیں۔

آپ قرآن و سنت کی روشنی میں اس تنازع کاحل مرحمت فرمائیں کہ اب تیسری بار ( یا بقول زید کے دوسری بار ) یہ در خت کٹوا کر بیچنے کا حق دار کون ہے  ؟زید  صاحب یا میرے والد  خالد صاحب کے ورثاء دو سرا کیا ان درختوں کا زمین سے اکھڑ وانا واجب و ضروری ہے؟ کیونکہ زید  صاحب کے بندے ان درختوں کو جڑ سے اکھٹروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔  خالد صاحب کے ورثاء کا کہنا ہے کہ جڑ سے یہ درخت اکھٹروانے کی صورت میں زمین میں گڑھے بن جائیں گے جن کو ہموار کرنے کے لیے اضافی خرچہ  خالد صاحب کے ورثاء کو کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اگر کھگل درخت کی جڑ کو زمین میں رہنے دیا جائے تو مستقبل میں ان در ختوں کی آمدن سے  خالد  صاحب کے ورثاء زمین کے کرایہ کو پورا کر سکیں گے۔ اگر اس جگہ یہ درخت نہ ہوتے تو اس ایک ایکڑ زمین پر چنا کی بیش بہا قیمت والی فصل اگائی جاسکتی تھی یا  خالد  صاحب کے ورثاء خود اپنے کھگل کے درخت لگا کر کچھ پیسے کما سکتے تھے لیکن  زید  صاحب کے اس جگہ پر درخت لگانے سے  خالد  صاحب کے ورثاء ان دونوں فوائد سے 13 سال تک محروم رہے۔

آج کل کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کھگل کا درخت پہلے کی نسبت کم جوان ہو تا ہے۔ اگر ان درختوں کو جڑ سے اکھڑوا دیا جائے تو ایک تو نئی قلموں کے درخت بننے کے امکانات کم ہیں دوسرا اس سے آمدنی کا ایک ذریعہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائے گا۔

مفتیان کرام اس ساری تفصیل کو سامنے رکھ کر شرعی حل مرحمت فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں درخت درخت لگانے والے کے شمار ہونگے اور زمین کے مالک کو اختیار ہے کہ وہ مذکورہ   درختوں کو اکھاڑنے کا حکم دے اور  اگر  مذکورہ درختوں کو اکھاڑنے  سے زمین کو نقصان ہوتا ہو تو ان  درختوں کے اکھڑے ہوئے  ہونے کی حالت میں ان کی جو  قیمت بنتی ہو اتنی قیمت  ان درختوں کے مالک کو دے کر یہ درخت خود رکھ لے۔

بدائع  الصنائع (7/149) میں ہے:

ولو غصب أرضا فبنى عليها أو غرس فيها لا ينقطع ملك المالك، ويقال للغاصب أقلع البناء والغرس وردها فارغة؛ لأن الأرض بحالها لم تتغير ولم تصر شيئا آخر، ألا ترى أنها لم تتركب بشيء، وإنما جاورها البناء والغرس بخلاف الساجة؛ لأنها ركبت وصارت من جملة البناء، ألا يرى أنه يسمي الكل بناء واحدا، فإن كانت الأرض تنقص بقلع ذلك فللمالك أن يضمن له قيمة البناء والغرس مقلوعا، ويكون له البناء والغرس؛ لأن الغاصب يتضرر بالمنع من التصرف في ملك نفسه بالقلع، والمالك أيضا يتضرر بنقصان ملكه، فلزم رعاية الجانبين،

ہندیہ(5/125) میں ہے:

ومن غصب أرضا فغرس فيها أو بنى قيل له: اقلع البناء والغرس وردها وإن كانت الأرض تنقص بقلع ذلك فللمالك أن يضمن له قيمة البناء أو الغرس مقلوعا ويكون له، ومعناه قيمة بناء أو شجر يوم يقلعه؛ لأن حقه فيه فتقوم الأرض بدون الشجر أو البناء وتقوم وبها شجر أو بناء أمر بقلعه فيضمن فضل ما بينهما كذا في الكافي

شامی(9/327) میں ہے:

(وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو شجر أمر بقلعه) أي ‌مستحق ‌القلع

(قوله أي ‌مستحق ‌القلع إلخ) وهي أقل من قيمته مقلوعا مقدار أجرة القلع فإن كانت قيمة الأرض مائة وقيمة الشجر المقلوع عشرة، وأجرة القلع درهم بقيت تسعة دراهم، فالأرض مع هذا الشجر تقوم بمائة وتسعة دراهم فيضمن المالك التسعة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved