- فتوی نمبر: 34-139
- تاریخ: 07 دسمبر 2025
- عنوانات: عبادات > قسم اور منت کا بیان > نذر و منت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ ایک آدمی نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو میں اپنی والدہ کو عمرہ کرواؤں گا پھر بعد میں وہ کام تو ہو گیا لیکن والدہ پہلے ہی فوت ہو گئیں تو کیا اب وہ ان پیسوں سے کسی دوسرے کو عمرہ کروا سکتا ہے یا ان پیسوں کو مسجد میں خرچ کر سکتا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ان پیسوں کو مسجد میں خرچ کرنےسے منت پوری نہ ہوگی بلکہ منت پوری ہونے کی صورت یہ ہے کہ جتنے پیسے عمرے پر خرچ ہوتے ہیں اتنے پیسے فقراء کو دے دیے جائیں،اور ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی اور کو عمرہ کروادیں لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ جس کو عمرہ کروایا جائے وہ فقیر ہو اور اس کو عمرے کے پیسوں کا مالک بنایا جائے چاہے وہ ان پیسوں سے عمرہ کرے یا نہ کرے لیکن بہتر پہلی صورت ہے۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں عمرہ کرانے کی نذر کا حاصل یہ ہے کہ جتنے پیسے عمرے پر خرچ ہوتے ہیں اتنے پیسے اللہ کے نام پر خرچ کروں گا کیونکہ کسی کو عمرہ کرانا عبادتِ مقصودہ نہیں اور نذر صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ نذر عبادتِ مقصودہ کی ہولہذا نذر پوری کرنے کے لیے اتنے پیسوں کا اللہ کے نام پر خرچ کرنا ضروری ہے اور نذر کے پیسوں کا مصرف فقراء و مساکین ہیں لہذا نذر پوری کرنے کی صورت یہ ہے کہ اتنی رقم فقراء و مساکین کو دے دی جائے لہذا اگر کسی کو عمرہ بھی کروایا جائے تو اس میں تصدق کی شرائط کا پایا جانا ضروری ہے تاہم بعض اہل علم نے مساکین کو دینے کو اولی اور بہتر کہا ہے ۔
فتح القدیر (3/174) میں ہے :
ومن قال: إن فعلت كذا فعلي أن أحج بفلان، فإن نوى أحج وهو معي فعليه أن يحج وليس عليه أن يحج به، وإن نوى أن يحجه فعليه أن يحجه لأن الباء للإلصاق فقد ألصق فلانا بحجه. وهذا يحتمل معنيين أن يحج فلان معه في الطريق وأن يعطي فلانا ما يحج به من المال والتزام الأول بالنذر غير صحيح والثاني صحيح لأن الحج يؤدى بالمال عند اليأس من الأداء فكان هذا في حكم البدل وحكم البدل حكم الأصل فيصح التزامه بالبدل كما يصح التزامه بالأصل.
امداد الفتاوی جدید(4/362)میں ہے:
سوال : ایک شخص نے حج کرانے کی نذر کی تھی ایک صاحب نصاب مولوی صاحب کو دیکر حج کرایا بوجہ مسکین نہ ہونے کے اگر حج ادا نہ ہونذر پوری نہ ہو اس کو دوسری دفعہ خرچ دے کر حج کرانا ہو گا یا نہیں؟
الجواب : نذرا دا نہیں ہوئی بقدر زاد حج کے مساکین کو دینا چاہئے ، خواہ وہ حج کرے یا نہ کرے نذرا دا ہو جائے گی۔
کفایت المفتی(2/253)میں ہے:
سوال: زید نے یہ منت مانی کہ اگر میر افلاں کام ہو گیا تو میں کسی کو حج کراؤں گا زید کا کام ہو گیازید اگر اتنا روپیہ جتنا کہ حج میں خرچ ہو تا ہو کسی ایسے شریف نادار کثیر الاولاد کو کام کاج کے لئے دے دے جس کی حالت نا گفتہ بہ ہو فاقوں پر نوبت ہو ایسے شخص کو روپیہ دینے سے زید کی منت ادا ہو جائے گی یا نہیں ؟
جواب : یہ منت اس طرح لازم ہو جاتی کہ میں خود حج کروں گا لیکن کسی کو حج کراؤں گا اس طریق پر لازم نہیں ہوئی اور اس لئے جائز ہے کہ زید بجائے حج کرانے کے یہ روپیہ کسی نادار تنگدست شخص کی امداد میں دیدے۔
سوال: میری والدہ ماجدہ صاحبہ بیمار ہوئی تھیں میں نے خدا تعالٰی سے یہ منت مانی تھی اگر یہ تندرست ہو جائیں گی تو میں ایک ایسے شخص کو حج کراؤں گا جس نے حج نہ کیا ہو اللہ پاک نے میری دعا قبول فرمائی اور میری والدہ ماجدہ صاحبہ کو تندرستی عطا کی اب میں نے ایک شخص کو تجویز کر کے یہاں سے دہلی لکھا مگر انہوں نے یہ جواب لکھا ہے کہ ایک ایسے شخص کثیر الاولاد ہیں بوجہ افلاس کے فاقوں تک نوبت رہتی ہے لہذا بجائے میرے حج کرانے کے ان کو روپیہ دے دیجئے تا کہ اس رقم سے یہ کچھ کام کاج کر لیں اپنی اور اپنے بچوں کی پرورش کر سکیں مگر میری دلی تمنا یہ ہے کہ میں حج کراؤں شرعی حیثیت سےمجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب :اس منت کو آپ اس کی اصلی صورت میں بھی پورا کر سکتے ہیں یعنی کسی کو حج کرادیں اور دوسری صورت اختیار کرنا یعنی کسی حاجت مند کو اس قدر ر قم دید ینا جس قدر حج کرانے میں خرچ ہوتی تو یہ بھی جائز ہے جو صورت آپ پسند کریں اس کی شرعی اجازت ہے اولی اور بہتر دوسری صورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved