- فتوی نمبر: 12-236
- تاریخ: 02 جولائی 2018
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مزاج گرامی!
امید ہے کہ آنجناب بخیر و عافیت ہوں گے۔
مختصراً گذارش یہ ہے کہ راقم الحروف بندہ ناچیز محمد عبد الحمید تونسوی عفا اللہ عنہ کو آنجناب کے تحریر کردہ رسالہ ’’مسنون حج و عمرہ‘‘ سے استفادہ کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی علمی کاوشوں کو قبول فرمائیں ۔ آمین
اس وقت اس حوالے سے مزید چند مسائل کے بارے میں آنجناب کی رہنمائی کی ضرورت ہے، امید ہے کہ آنجناب خصوصی شفقت فرماتے ہوئے ہمیں اپنے جواب باصواب سے ضرور نوازیں گے۔
جزاکم الله خيرا و بارک الله في حياتکم و تقبل الله جهودکم الطيبة۔
وہ چند مسائل حسب ذیل ہیں :
1۔ علمائے احناف، افعال عمرہ میں صفا و مروہ کی سعی کے بعد دوگانہ شکرانہ کا ذکر کرتے ہیں [جیسا کہ آنجناب نے بھی اپنے رسالہ میں تحریر فرمایا ہے] اور آپ نے اس کی دلیل مسند احمد، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان سے یہ روایت پیش کی ہے:
’’حين فرغ من سعيه جاء حتيٰ اذا حاذي الرکن فصليٰ رکعتين۔۔۔‘‘
(مسنون حج و عمرہ: 91، مجلس نشریات اسلام کراچی)
بندہ ناچیز کو کتب حدیث میں بسیار تلاش کے باوجود حدیث بالا میں ’’من سعيه‘‘ کے الفاظ نہیں مل سکے، بلکہ تمام کتب میں ’’من سعیہ‘‘ کے بجائے ’’من سبعه‘‘ کے الفاظ منقول ہیں ۔ (ابن ماجہ: 2958، نسائی: 2959، ابن حبان: 2363)
اور آنجناب سے مخفی نہیں کہ اس سے مراد طواف کے ساتھ چکروں کے بعد دوگانہ [واجب] ادا کرنا ہے، نہ کہ سعی کے بعد دو گانہ نفل۔ اسی لیے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اس پر ’’باب الرکعتين بعد الطواف‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔
لگتا یوں ہے کہ کسی نے بعد میں سہواً یا عمداً ’’من سبعه‘‘ کے الفاظ کے بجائے ’’من سعيه‘‘ لکھ دیا ہے۔ اور پھر اسی بناء پر سعی کے بعد دوگانہ نفل کا حکم دیا جانے لگا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ شاید بعض حضرات نے سعی کے بعد دوبانہ کو طواف کے بعد دوگانہ پر قیاس کر کے حکم دیدیا ہو۔ نیز اس نفل شکرانہ پر کسی کا عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ حنفیہ کے علاوہ کوئی بھی ان کا قائل نہیں ۔ لعدم الثبوت۔
بہر حال اس بارے میں آنجناب کی تحقیق سے ہی اصل حقیقت واضح ہو سکے گی، کہ دریں صورت اس نفل کی حیثیت کیا ہو گی؟
2۔ اسلام کے لیے حجر اسود کو چھو کر یا ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو چوم لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ہاتھ یا چھڑی وغیرہ سے حجر اسود کو چھونے کے بعد چومنے کا ذکر تو روایات میں موجود ہے جیسا کہ آپ نے نقل فرمایا:
’’ويستلم الرکن بمحجن معه و يقبل المحجن۔‘‘ (مسلم: رقم الحدیث: 257)
مگر دریافت طلب امر یہ ہے کہ محض ہاتھ کے اشارہ کے بعد اپنے ہاتھ کو چومنے کا ذکر بھی کسی روایت میں صراحتاً ہے یا نہیں ؟ کیونکہ حدیث میں جہاں اشارہ کا ذکر ہے وہاں تقبیل کا نہیں ۔کیا ہاتھ کے اشارہ کے بعد تقبیل کو بھی چھونے کے قائم مقام سمجھ کر قیاساً چومنے کا حکم دیدیا گیا ہے؟
3۔ حجاز مقدس کے سفر میں احناف کے ہاں عورتوں کی نماز کو حرم کے بجائے اپنی قیام گاہ میں افضل بتایا جاتا ہے [جیسا کہ آنجناب نے بھی اپنے رسالہ ص: 180 میں تحریر فرمایا ہے]۔ سوال یہ ہے کہ خواتین کی نماز جب اپنے کمرے میں افضل ہے تو کیا انہیں وہاں مسجد حرام کی فضیلت [ایک لاکھ] اور حرم نبوی کی فضیلت [دس ہزار یا پچاس ہزار] نماز کے برابر بھی حاصل ہو گی یا نہیں ؟
نیز اس امر کی وضاحت بھی ضرور فرمائیں کہ حرمین شریفین کی مذکورہ فضیلت کا تعلق صرف مسجد حرام یا مسجد نبوی سے ہے یا پوری حدود حرم سے؟
4۔ حالت احرام میں پاؤں کی ابھری ہوئی ہڈی کو ظاہر کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اشکال یہ ہے کہ بعض حضرات نے ’’کعبين‘‘ سے ٹخنے مراد لیے ہیں ۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟
حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب سکھروی مدظلہ نے بھی اپنے ایک رسالہ میں پاؤں کی پشت کی ہڈی کے ساتھ ساتھ ٹخنے کھلے رکھنے کا ذکر فرمایا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ بعض فقہائے حنفیہ نے ان دو نوافل کو مستحب کہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نسائی شریف کے ایک نسخہ میں ’’من سبعه‘‘ کے بجائے ’’من سعيه‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ ملاحظہ ہو ’’نسائی‘‘ جلد: 2، صفحہ 39، باب این یصلی رکعتی الطواف، مکتبہ المیزان۔ ممکن ہے ان فقہاء کے سامنے یہی نسخہ ہو۔ دوسری وجہ وہی ہے جو آپ نے بھی ذکر کی ہے یعنی طواف کے دو نفلوں پر قیاس۔ اور استحباب کا ثبوت قیاس سے بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اعلاء السنن میں ہے:
و يمکن اثبات الاستحباب و الفضيلة بالقياس۔ (12/7)
2۔ مسلم شریف کی مذکورہ حدیث میں چھڑی سے استلام کرنے اور چھڑی کو بوسہ دینے کا تذکرہ ہے۔ اب یہ استلام چھو کر تھا یا اشارے سے تھا اس کا تذکرہ اس حدیث میں نہیں جبکہ بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ استلام اشارے سے تھا۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
عن ابن عباس رضي الله عنه قال: طاف رسول الله ﷺ علي بعير کلما أتيٰ علي الرکن أشار اليه بشئ في يده و کبّر۔۔۔۔۔(ص: ۔۔۔۔)
لہذا دونوں حدیثوں کو ملانے سے اشارے کے ساتھ استلام کے بعد ہاتھ یا چھڑی کو چومنا ثابت ہوتا ہے۔
3۔ اس کی صراحت تو نہیں ملی البتہ افضلیت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فضیلت اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے بھی حاصل ہو۔
نیز مسجد نبوی میں فضیلت کا تعلق تو صرف مسجد نبوی سے ہے البتہ مسجد حرام میں فضیلت کے تعلق کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ تعلق پورے حدود حرم سے ہے۔ لیکن ہماری تحقیق میں یہ قول مرجوح ہے جس کی تفصیل ’’مسنون حج و عمرہ‘‘ ص: 96 پر موجود ہے۔
4۔ حج کے باب میں فقہائے حنفیہ نے ’’کعبین‘‘ سے وسط قدم میں ابھری ہوئی ہڈی مراد لی ہے اور اس میں احتیاط بھی ہے۔
بعض حضرات سے کون مراد ہیں ؟ اور ان کے کیا دلائل ہیں انہیں دیکھ ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔
مفتی عبدالرؤف صاحب کے ذکر کردہ مسئلے میں اشکال کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ تو دونوں (پاؤں کی پشت کی ہڈی اور ٹخنے) کو کھلا رکھنے کا کہہ رہے ہیں اور دونوں کو کھلا رکھنا مطلوب ہے، اشکال تو تب ہوتا جب وہ پاؤں کی پشت کی ہڈی کو چھپانے کی اجازت دیتے، اور صرف ٹخنوں کے کھلا رکھنے کو ضروری قرار دیتے۔ و اذ لیس فلیس
© Copyright 2024, All Rights Reserved