• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا اذان سننا واجب ہے؟

استفتاء

1۔اذان سننا واجب ہے یا مستحب؟

2۔ اگر واجب ہے  توکسی شہر یا محلے کی ہر مسجد کی اذان سننا  واجب ہے یا کوئی سی بھی اذان سننا کافی ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1،2۔ اذان سننا  مستحب ہے اور جو بھی اذان ہو (خواہ وہ اپنے محلے کی ہو یا دوسرے محلے کی ہو) اس کا سننا مستحب ہے بشرطیکہ اس کی آواز سنائی دے رہی ہو۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (202) میں ہے:

ولا يشتغل بشيء سوى الإجابة اھ. والتفريغ  يندب الامساك عن التلاوة الخ لايظهر الا على القول بالسنية و قيل مندوبة ،وبه قال مالك و الشافعي و احمد و جمهور الفقهاء،و اختاره العيني في شرح البخاري، وقال الشهاب ‌في ‌شرح ‌الشفاء هو الصحيح لأنه صلى الله عليه وسلم سمع مؤذنا كبر فقال: على الفطرة فسمعه تشهد فقال: خرجت من النار وصرح في العيون بأن الإمساك عن التلاوة والاستماع إنما هو أفضل وصرح جماعة بنفي وجوبها باللسان وأنها مستحبة حتى قالوا: إن فعل نال الثواب وإلا فلا أثم ولا كراهة وحكى في التجنيس الاجماع على عدم كراهة الكلام عند سماع الاذان. اھ. أى تحريما

فتاویٰ ہندیہ(1/124) میں ہے:

ولاينبغى أن يتكلم سامع فى خلال الاذان والاقامة ولايشتغل بقراءة القرآن ولابشئ من الاعمال سوى الاجابة.

بدائع الصنائع(1/483) میں ہے

ولا ينبغي أن يتكلم السامع في حال الاذان و الاقامة ولا يشتغل بقراءة القرآن ولا بشيء من الأعمال سوى الاجابة و لو كان في القرآءة ينبغي أن يقطع و يشتغل بالاستماع والاجابة كذا قالوا في الفتاوى والله اعلم

ردالمحتار (2/86) میں ہے

و ينبغي للسامع أن لا يتكلم ولا يشتغل بشيء في حالة الاذان و الاقامة ولا يرد السلام أيضاً ، لأن الكل يخل بالنظم اھ۔

فتاویٰ رحیمیہ (4/109) میں ہے:

سوال: اکثر لوگوں کی عام عادت ہوچکی ہے کہ اذان کا جواب دینا تو درکنار اس وقت دنیاوی باتوں میں مشغول رہتے ہیں ، اذان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، اس کے متعلق کوئی شرعی حکم اور وعید ہو تو بیان کیجئے ؟

جواب: حدیث اور فقہ میں اس کی سخت وعید آئی ہے ، اس سے احتراز ضروری ہے ، اس کی عادت کر لینا ضعف ایمان کی دلیل ہے ، رسم المفتی والسائل میں ہے : ویکره الکلام والذهاب عند الاذان کذا فی خزانة الروايات ناقلا عن حاشية السراجية عن فتاوى الحجة وفيها عن الفتاوى الصوفيه اجمعوا على ان يترك الكلام الدنيوى ، و روى عن النبي صلى الله عليه وسلم من تكلم عند الاذان خيف عليه زوال الايمان انتهى. قلت هذا الحديث لم يثبت بسند يحتج به. یعنی فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ اذان کے وقت دنیاوی باتیں چھوڑ دی جائیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص اذان کے وقت بات چیت کرے تو اس کے ایمان کے زوال کا خوف ہے ، یہ حدیث اگرچہ ایسی مضبوط نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے (مگر فضائل اعمال میں چل سکتی ہے) (رسم المفتی والسائل)

عمدۃ الفقہ(1/41) میں ہے:

اگر ایک ہی مسجد کی کئی اذانیں سنے جیساکہ  بڑی مسجدوں میں اذان جوق کا رواج ہے یا کئی مسجدوں کی اذانیں یکے بعد دیگرے ساتھ ساتھ سنے تو اس پر پہلی ہی اذان کا جواب ہے خواہ وہ اس کی اپنی مسجد کی اذان ہو یا دوسری کی اور بہتر یہ ہے کہ سب کا جواب دے۔

احسن الفتاویٰ (2/292) میں ہے:

سوال : اگر کئی مسجدوں سے اذان سنائی دے تو کس مسجد کی اذان کا جواب دے ؟ صرف اپنے محلہ کی مسجد کا جواب کافی ہے ؟

جواب: بہتر یہ ہے کہ سب اذانوں کا جواب دے ، اگر اس میں تکلف ہو تو پہلی اذان کا زیادہ حق ہے اس کا جواب دے ، خواہ محلہ کی مسجد میں ہو یا دوسری جگہ کی۔

احسن الفتاویٰ (2/283) میں ہے:

سوال ۔ اذان کے وقت دنیوی بات کرنا کیسا ہے ؟ مکروہ ہے یا نہیں؟

جواب ۔ بوقت اذان خاموش رہنا مستحب ہے ، لہذا بلا ضرورت بات نہیں کرنی چاہیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved