- فتوی نمبر: 33-288
- تاریخ: 03 جولائی 2025
- عنوانات: عبادات > نماز > سجدہ سہو کا بیان
استفتاء
سوال :نمازی کو غالب گمان ہے کہ ایک سجدہ رہ گیا ہے تو اس کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہے تفصیل سے لکھ دیجیے۔
جواب: اگر نمازی کو ایک سجدہ رہ جانے کا یقین یا غالب گمان ہے تو نماز کے جس رکن میں یاد آیا نمازی کو چاہیے کہ فورا یہ سجدہ ادا کرے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرے اگر قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھنے سے پہلے فوت شدہ سجدہ یاد آیا تو سجدہ کر کے تشہد پڑھے پھر سجدہ سہو کے بعد نماز مکمل کرے اور اگر تشہد پڑھنے کے بعد سجدہ یاد آیا تو پہلے وہ سجدہ کرے پھر اس سجدہ سے اٹھ کر فوری سجدہ سہو کرے اس کے بعد نماز مکمل کر کے سلام پھیرے اور اگر دونوں سلام پھیرنے کے بعد فوت شدہ سجدہ یاد آیا تو جب تک نماز کے منافی کوئی عمل نہیں کیا فوری سجدہ کر کے سجدہ سہو کرے اس کے بعد نماز مکمل کر ے اور اگر سلام پھیرنے کے بعد کوئی عمل منافی نماز کر لیا مثلا بات کر لی یاآواز سے ہنس پڑا یا وضو توڑ دیا یا مسجد سے نکل گیا تو اب سجدے کا موقع نہیں رہا اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہے۔[خواتین کا اسلام]
1۔اس جواب میں جو لکھا ہے کہ” جب یاد آئے تو فورا سجدہ کرے” یعنی جس بھی رکن میں ہو اسکو چھوڑ کر سجدہ کرے یا اگلی رکعت کے 2 سجدوں کے ساتھ تیسرا سجدہ کرے”۔ سوال یہ ہے کہ جس رکن کو چھوڑ کر سجدہ کیا تھا کیا اس رکن کو نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا یا جہاں سے چھوڑا تھا ادھر سے پورا کریں گے؟
2۔اور اسی طرح اگر رکوع جو بھولے سے رہ جائے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جس رکن میں سجدہ یاد آیا تھا اور اس کو چھوڑ کر سجدہ ادا کیا ہے اس رکن کا دوبارہ اعادہ مستحب ہے، ضروری نہیں جیسے پہلی رکعت کا سجدہ دوسری یا تیسری رکعت کے رکوع میں یاد آئے تو رکوع چھوڑ کر سجدہ کریں گے، سجدہ ادا کرنے کے بعد مستحب یہ ہے کہ رکوع دوبارہ کیا جائے پھر سجدے میں جائیں لیکن اگر سجدہ کرنے کے بعد رکوع دوبارہ نہیں کیا بلکہ سیدھا دوبارہ دوسری یا تیسری رکعت کے سجدے میں گئے تو تب بھی جائز ہے اور دونوں صورتوں میں آخر میں سجدہ سہو بھی کریں گے۔
2۔اگر رکوع بھول جائے تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر سجدے کا بیان ہوا لیکن جو رکوع بھول گئے تھے اس کو ادا کرنے کے بعددو سجدے بھی دوبارہ کریں گے صرف رکوع کرنا کافی نہیں۔
نوٹ:ساتھ لف شدہ مسائل میں جو مسئلہ لکھا ہے کہ” اگر تشہد پڑھنے کے بعد سجدہ یاد آیا تو پہلے سجدہ کرے پھر اس سجدہ سے اٹھ کر فوری سجدہ سہو کرے………اور اگر دونوں سلام پھیرنے کے بعد فوت شدہ سجدہ یاد آیا ………. فوری سجدہ کر کے سجدہ سہو کرے”اس میں جو یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ کرنے کے بعد فورا سجدہ سہو کرے درست نہیں بلکہ ایسی صورت میں پہلے جو سجدہ رہ گیا تھا وہ ادا کریں گے پھر دوبارہ عبده ورسوله تک تشہد پڑھیں گے پھر سجدہ سہو کر کے پھر تشہد درود شریف اور دعا پڑھ کر نماز پوری کریں گے۔
ہندیہ(1/126) میں ہے:
وحكم السهو في الفرض والنفل سواء، كذا في المحيط، قال في الفتاوى: القعدة بعد سجدتي السهو ليست بركن وإنما أمر بها بعد سجدتي السهو ليقع ختم الصلاة بها حتى لو تركها فقام وذهب لا تفسد صلاته، كذا قاله الحلواني، كذا في السراج الوهاج.
وفي الولوالجية الأصل في هذا أن المتروك ثلاثة أنواع فرض وسنة وواجب ففي الأول أمكنه التدارك بالقضاء يقضي وإلا فسدت صلاته وفي الثاني لا تفسد؛ لأن قيامها بأركانها وقد وجدت ولا يجبر بسجدتي السهو وفي الثالث إن ترك ساهيا يجبر بسجدتي السهو وإن ترك عامدا لا، كذا التتارخانية.
شامی (2/188) میں ہے:
(ورعاية الترتيب) بين القراءة والركوع و (فيما يتكرر) أما فيما لا يتكرر ففرض كما مر (في كل ركعة كالسجدة).
(قوله كالسجدة) الكاف استقصائية إذا لم يتكرر في الركعة سواها ومثله الكاف في قوله كعدد ح، والمراد بها السجدة الثانية من كل ركعة، فالترتيب بينها وبين ما بعدها واجب. قال في شرح المنية حتى لو ترك سجدة من ركعة ثم تذكرها فيما بعدها من قيام أو ركوع أو سجود فإنه يقضيها ولا يقضي ما فعله قبل قضائها مما هو بعد ركعتها من قيام أو ركوع أو سجود، بل يلزمه سجود السهو فقط، لكن اختلف في لزوم قضاء ما تذكرها فقضاها فيه، كما لو تذكر وهو راكع أو ساجد أنه لم يسجد في الركعة التي قبلها فإنه يسجدها، وهل يعيد الركوع أو السجود المتذكر فيه، ففي الهداية أنه لا تجب إعادته بل تستحب معللا بأن الترتيب ليس بفرض بين ما يتكرر من الأفعال وفي الخانية أنه يعيده وإلا فسدت صلاته معللا بأنه ارتفض بالعود إلى ما قبله من الأركان لأنه قبل الرفع منه يقبل الرفض، بخلاف ما لو تذكر السجدة بعد ما رفع من الركوع لأنه بعد ما تم بالرفع لا يقبل الرفض. اهـ. ومثله في الفتح.
قال في البحر: فعلم أن الاختلاف في الإعادة ليس بناء على اشتراط الترتيب وعدمه، بل على أن الركن المتذكر فيه هل يرتفض بالعود إلى ما قبله من الأركان أو لا
شامی (2/171) میں ہے:
وبقي من الفروض ……… وترتيب القيام على الركوع والركوع على السجود، والقعود الأخير على ما قبله ……… الخ
(قوله وترتيب القيام على الركوع إلخ) أي تقديمه عليه ……… وقوله والقعود الأخير إلخ أي يفترض إيقاعه بعد جميع الأركان؛ حتى لو تذكر بعده سجدة صلبية سجدها وأعاد القعود وسجد للسهو، ولو ركوعا قضاه مع ما بعده من السجود.
فتاوی محمودیہ(7/419) میں ہے:
سوال: اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اس نے پہلی رکعت میں ایک سجدہ غلطی سے کیا ہو دوسری رکعت میں یاد آجائے تو کیا حکم ہے؟
جواب : جب یاد آئے جب ہی سجدہ کر لے اگر دوسری رکعت کے سجدہ کے بعد یاد آئے اس وقت کرے ورنہ اگر قیام قعود وغیرہ میں یاد آئے تو اس وقت کر کے جس رکن کو وسط میں چھوڑ کر سجدہ کیا اس کا اعادہ کرے۔
فتاویٰ دار العلوم دیوبند(4/505) میں ہے:
سوال: مُصلِی نے نیت باندھ کر رکوع نہیں کیا بلکہ سجدہ میں چلا گیا دونوں سجدوں کے بعد یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا اس کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:سجدے سے کھڑا ہو کر رکوع کرے اور سجدہ پھر سے کرے اور اخیر میں سجدہ سہو کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved