• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا ظہرکی نماز  کا وقت مثل ثانی تک ہوتا ہے؟

استفتاء

(وآخره مصيرظل الشيء مثله سوى فيئ الزول وهو أول وقت العصر)

اور اس کا آخری وقت  زوال کے سائے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوجانے تک ہے اور یہی عصر کا ابتدائی وقت ہے

1-حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد نماز پڑھائی(وكان الفيئ قدر الشراك)(زوال)فئ تسمہ کے برابر تھا  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر پڑھائی(حين كان الفيئ قدر الشراك وظل الرجل) جس وقت( زوال فئ) کا سایہ تسمے اور آدمی کے سائے کے برابر تھا

2-حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث میں ہے (فصلى بى الظهر في اليوم الثانى حين صار ظل كل شيئمثله) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوسرے روز مجھے نماز ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا۔(جمہور) اسی کے قائل ہیں۔

(امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) ظہر کا آخری وقت وہ ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو جائے (واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس رائے کو خود علمائے احناف نے بھی قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مرفوع حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔

(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے گزشتہ صحیح حدیث اس کا ثبوت ہے۔

دو مثل سایہ پر امام صاحب اور احناف کی کیا دلیل ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے اور علماء احناف نے امام صاحب کی رائے کو لیا بھی ہےاور امام صاحب کے قول پر فتوی بھی دیتے ہیں۔

بخاري شريف (1/128) میں ہے:

عن أبي ذر قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فأراد المؤذن أن يؤذن فقال له أبرد ثم أراد أن يؤذن فقال له أبرد ثم أراد أن يؤذن فقال له أبرد حتى ساوى الظل التلول فقال النبي صلى الله عليه وسلم إن شدة الحر من فيح جهنم

ترجمہ:حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے مؤذن اذان دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ٹھنڈا کر (ابھی ٹھہر جاؤ )پھر جب اس نے اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا ٹھہر جاؤ پھر وہ اذان دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھر جاؤ یہاں تک کہ سایہ  ٹیلوں کے برابر ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی  سے ہے۔

فائدہ :اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز مثل اول کے بعد  مثل ثانی میں پڑھائی جب ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہو گیا تو معلوم ہوا کہ عصر کا وقت ملے ثانی کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوگا کیونکہ حدیث میں آتا ہے

ترمذی شریف  (1/ 283)ميں ہے:

151 عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:«إن للصلاة أولا وآخرا، وإن أول وقت صلاة الظهر حين تزول الشمس، وآخر وقتها حين يدخل وقت العصر، وإن أول وقت صلاة العصر حين يدخل  وقتها،

نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت ہے اور ظہر کا اول وقت تب ہوتا ہے جس وقت سورج ڈھل جائے اور ظہر کا آخری وقت تب ہوتا ہے جس وقت عصر کا وقت داخل ہوجائے۔

بخاری شريف (1/129) میں ہے:

عن ابن عمر رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إنما أجلكم في أجل من خلا من الأمم ما بين صلاة العصر إلى مغرب الشمس وإنما مثلكم ومثل اليهود والنصارى كرجل استعمل عمالا فقال من يعمل لي إلى نصف النهار على قيراط قيراط فعملت اليهود إلى نصف النهار على قيراط قيراط ثم قال من يعمل لي من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط قيراط فعملت النصارى من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط قيراط ثم قال من يعمل لي من صلاة العصر إلى مغرب الشمس على قيراطين قيراطين ألا فأنتم الذين يعملون من صلاة العصر إلى مغرب الشمس على قيراطين قيراطين ألا لكم الأجر مرتين فغضبت اليهود والنصارى فقالوا نحن أكثر عملا وأقل عطاء قال الله هل ظلمتكم من حقكم شيئا قالوا لا قال فإنه فضلي أعطيه من شئت۔

ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے جو امتیں گزریں ان کی مدت کے مقابلے میں تمہاری مدت اتنی ہے جتنی عصر کی نماز سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک ہوتی ہے اور تمہاری اور یہود و نصاری کی مثال اس طرح کی ہے کہ ایک شخص  نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر رکھا  تو پہلی پیشکش میں کہا کون میرے لیے نصف النھار تک ایک ایک قیراط پر مزدوری کریگا  یہود نے ایک ایک قیراط پر نصف النھار تک مزدوری  کی پھر کہا کون میرے لیے نصف النھار سے عصر تک مزدوری کریگا  تو نصاریٰ نے ایک ایک قراط پر نصف النہار سے عصر تک مزدوری کی پھر اس شخص نے  تیسری پیشکش کی کہ عصرکی   نماز سے غروب آفتاب تک دودوقیراط پر کون میرے لیے مزدوری کریگا اے مسلمانوں تم ہی ہو جو عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک مزدوری کر رہے ہو جان لو کہ تمہارے  لیے ہی دو گناہ اجر ہے اللہ تعالی کی مسلمانوں کے لیے اس پیشکش پر یہود و نصاری ناراض ہوئے اور کہا ہم مزدوری زیادہ کریں یعنی ہماری مزدوری کا وقت زیادہ ہو اور اجرت کم پائیں اللہ تعالی نے فرمایا کیا میں نے تمہارے لئے جو مزدوری طے کی  تھی اس کے دینے میں تمہارے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں تو اللہ تعالی نے فرمایا یہ تو میرا فضل ہے جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں ۔

فائدہ :نصف النہار سے غروب آفتاب تک کے وقت کو لیں تو ایک مثل اس کے تقریبا نصف پر ہوتا ہے اگر عصر کا یہ وقت ہو تو پھر نصاری کا یہ کہنا کہ ہماری محنت و مزدوری  کا وقت مسلمانوں سے زیادہ ہے درست نہ ہو گا بلکہ دونوں کی مزدوری کا وقت برابر ہو گا اور  اگر عصر کا وقت دو مثل پر ہو تو پھر نصاری کا اعتراض صحیح بنتا ہے نیز نصاریٰ کے اعتراض پر یوں نہیں کہا گیا کہ تم دونوں جماعتوں کا وقت اور عمل تو یکساں ہے بلکہ کم عمل پر اجرت کو اپنا فضل بتایا تو معلوم ہوا کہ عصر کی نماز کا وقت دو مثل پر ہی ہوتا ہے اور اس سے پہلے کا وقت ظہر کا وقت ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی بھی  یہ ہے کہ عصر کا وقت  دو مثل کے بعد شروع ہوتا اس سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ دو مثل تک  ظہر کا وقت  ہی رہتا ہے۔

مؤطا امام مالك (15) ميں ہے:

عن عبد الله بن رافع مولى أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنه سأل أبا هريرة عن وقت الصلاة فقال أبوهريرة أنا أخبرك صل الظهر إذا كان ظلك مثلك والعصر إذا كان ظلك مثليك والمغرب إذا غربت الشمس والعشاء ما بينك وبين ثلث الليل

ترجمہ :ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں تمہیں بتاتا ہوں تم ظہر کی نماز اس وقت پڑھو جب تمہارا سایہ تمہارے قد کے برابر ہو جائے  (یعنی ایک مثل ہو جائے )اور عصر کی نماز اس وقت پڑھو جب تمہارا سایہ تمہارے قد سے دو گناہ (یعنی دو مثل ہو جائے )

ہدایہ (1/81) میں ہے:

وقت الظهر إذا زالت الشمس لإمامة جبريل عليه السلام في اليوم الأول حين زالت الشمس وآخر وقتها عند أبي حنيفة رحمه الله إذا صار ظل كل شيء مثليه سوى فيء الزوال وقالا إذا صار الظل مثله وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله وفيء الزوال هو الفيء الذي يكون للأشياء وقت الزوال لهما إمامة جبريل عليه السلام في اليوم الأول في هذا الوقت ولأبي حنيفة رحمه الله قوله عليه الصلاة والسلام أبردوا بالظهر فإن شدة الحر من فيح جهنم وأشد الحر في ديارهم في هذا الوقت وإذا تعارضت الآثار لا ينقضي الوقت بالشك۔

بحر الرائق (1/258) میں ہے:

قوله ( والعصر منه إلى الغروب ) أي وقت العصر من بلوغ الظل مثليه سوى الفيء إلى غروب الشمس والخلاف في آخر وقت الظهر جار في أول وقت العصر وفي آخره خلاف أيضا فإن الحسن بن زياد يقول إذا اصفرت الشمس خرج وقت العصر ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved