- فتوی نمبر: 25-199
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
ہمارا ایک قریبی رشتہ دار مریض ہے جس کے مرض کا نام موٹو نیوران ڈیزیز(Moto Neuron Disease) ہے، مریض کے پٹھے ختم ہوچکے ہیں حرکت بھی نہیں کر سکتا اور بول بھی نہیں سکتا۔ مریض کا سانس مشین کے ذریعے چل رہا ہے۔ پیچھے سے کمر زخموں کی وجہ سے گل گئی ہے۔ مریض کو تقریباً ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ ہم سب گھر والوں کا مشورہ ہوا ہے کہ ان کا وینٹی لیٹر ہٹا دیا جائے کیونکہ مریض کو سرکاری ہسپتال میں رکھا گیا ہے جہاں پر اگرچہ دوائی وغیرہ کے زیادہ اخراجات نہیں ہیں لیکن مریض کے زخموں کی صفائی، مریض کے پیمپر کی تبدیلی وغیرہ تمام دیکھ بھال لواحقین کو کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ زخموں میں بدبو بہت زیادہ ہے، کوئی قریب جانے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ آکسیجن اس وقت تک نہ ہٹائیں گے جب تک مریض خود نہ کہے۔ مریض کا دل و دماغ چل رہا ہے۔ یعنی ہوش و حواس قائم ہیں اس کے علاوہ پورا جسم ڈیڈ ہے۔ ڈاکٹروں نے مریض سے پوچھا ہے کہ ’’وینٹی لیٹر ہٹا دیں؟‘‘ تو مریض نے اجازت نہیں دی(مریض بول نہیں سکتا لیکن آنکھ سے ہاں ناں کا اشارہ کرتا ہے) ، اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ ڈاکٹر نے ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ وینٹی لیٹر ہٹانے کے 5منٹ بعد آپ کی موت ہوجائے گی۔ اور ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ:
- کیا مریض کے لواحقین وینٹی لیٹر رکھنے کے شرعاً پابند ہیں؟
- اگر لواحقین ایسی صورت میں وینٹی لیٹر ہٹوادیں یا ڈاکٹر ہٹا دیں تو کیا یہ جائز ہے؟
- ان کی یقینی موت کے ذمہ دار لواحقین یا ڈاکٹرز ہوں گے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مریض کو وینٹی لیٹر پر رکھنا علاج کا ایک حصہ ہے۔ علاج کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ علاج کرنا یا کروانا شرعاً لازم نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص علاج نہ کروائے اور علاج نہ کروانے کی وجہ سے مرجائے تو اسے خود کشی کا گناہ نہیں ہوتا، اس لئے اگر کسی مریض کے بارے میں طبی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ مزید علاج معالجہ اس کے لیے مفید نہیں ہے تو اس کا علاج ترک کردینا اور وینٹی لیٹر ہٹا دینا جائز ہے۔ اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے:
- علاج کرنا یا کروانا شرعاً لازم نہیں ہے، اس لئے مریض کے لواحقین وینٹی لیٹر رکھنے کے شرعاً پابند نہیں ہیں۔
- اگر طبی تحقیق کے مطابق علاج سے مریض کے صحت یاب ہونے کا امکان بالکل نہ ہو تو خود لواحقین یا لواحقین کے کہنے سے ڈاکٹر حضرات وینٹی لیٹر ہٹا سکتے ہیں۔
نوٹ: اس کے لیے محض ایک ڈاکٹر کی رائے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دو تین ماہرین سے رائے لے لی جائے۔
- ایسی صورت میں وینٹی لیٹر ہٹانا علاج چھوڑنا ہے، مہلک انجکشن لگا کر قتل کرنے کی طرح نہیں ہے۔ اس لئے وینٹی لیٹر ہٹانے سے مریض کی موت واقع ہونے پر کسی پر قتل کا گناہ نہیں ہوگا۔
مریض و معالج کے اسلامی احکام (35) میں ہے: عن اسامة بن شريک قال: کنت عند النبى وجاءت الاعراب فقالوا يا رسول الله انتداوي فقال نعم يا عباد الله تداووا فإن الله عزوجل لم يضع داء إلا وضع له شفاء غير داء واحد قالوا ما هو قال الهرم.(احمد)’’حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نبی کریمﷺ کے پاس تھا۔ چند بدو آئے اور کہا یا رسول اللہﷺ کیا ہم دوا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں اے اللہ کے بندو دوا کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری پیدا نہیں کی مگر یہ کہ اس کے لیے شفاء بھی پیدا کی ہے سوائے ایک بیماری کے۔ انہوں نے پوچھا وہ کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا بڑھاپا۔‘‘مریض و معالج کے اسلامی احکام (34) میں ہے:
ظنیمثلاً طب میں علاج معالجہ کے لیے اختیار کیے جانے والے ظاہری اسباب اور دوائیں کہ ظن غالب ہوتا ہے کہ ان کے استعمال سے شفا حاصل ہوگی۔ یہی حکم اس دم اور تعویذ کا ہے جو کلام الٰہی یا اللہ تعالیٰ کے نام پر مشتمل ہو اور شرک سے خالی ہو۔
ان کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں۔ لیکن ان کو ترک کرنا ممنوع بھی نہیں ہے بلکہ بعض لوگوں کے حق میں بعض حالات میں ان کا ترک کرنا افضل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: قال رسول اللهﷺ يدخل الجنة من امتي سبعون ألفا بغير حساب قالوا من هم يا رسول الله قال هم الذين لا يسترقون و لا يتطيرون ولا يکتوون و على ربهم يتوکلون.(مسلم)تکملۃ فتح الملہم (4/292) میں ہے:قوله (فاذا اصيب دواء برأ باذن الله عزوجل) وقال النووي فى هذا الحديث اشارة الى استحباب الدواء وهو مذهب اصحابنا و جمهور السلف و عامة الخلف……… و فيه رد على من انکر التداوی من غلاة الصوفية……الخمریض و معالج کے اسلامی احکام (319) میں ہے: جو مریض اپنے ہوش و حوا س میں نہ ہو بلکہ مکمل یا نصف کوما(Coma) کی حالت میں ہو یا مریض سخت اذیت میں ہو اور اس کے تندرست ہونے کا امکان معدوم ہو تو کیا ایسی حالت میں مریض کو سکون پہنچانے کی خاطر اس کو موت کے حوالے کیا جاسکتا ہے؟ مثلا اس طرح سے کہ اس کو کوئی خواب آور دوا مہلک مقدار میں دے دی جائے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ جب آدمی کو تکلیف کی وجہ سے خود کشی کرنا حرام ہے جیسا کہ نيچے دی گئی حدیثوں سے واضح ہے تو کسی دوسرے کے لیے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کے خود کشی کرنے پر اس سے تعاون کرے یا خود اس کو مار دے۔ اتنا تو ہو سکتا ہے کہ اگر شفاء کی امید نہ رہے تو علاج ترک کر دیا جائے۔ الخمریض و معالج کے اسلامی احکام(39) میں ہے:اگر کوئی مرض اور زخم ایسا ہو کہ جس سے بالکل جانبر نہ ہوتا ہو تو اس کے لیے دوا استعمال نہ کرے بلکہ علاج ترک کر دے۔ اسی طرح کبھی دماغ کی شریان پھٹنے وغیرہ سے مریض پر بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ کبھی تو مریض جانبر ہوجاتا ہے اور کبھی بے ہوشی طویل ہوجاتی ہے اور طبی تحقیق کے مطابق صحت یاب ہونے کا امکان بالکل نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں بھی علاج ترک کر دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved