استفتاء
1۔”حدیث پا ک میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دس خصوصیات مجھ میں ایسی ہیں جو کسی عورت میں نہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب حضورﷺ نماز پڑھ رہے ہوتے تو جب سجدے میں جاتے تو میرے پاؤں کو چھوتے میں اپنے پاؤں اکٹھے کرلیتی ۔
پوچھنا یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیٹنے کی صورت کیاتھی ؟ایک تو یہ کہ جس طرح امام کے آگے جنازہ رکھا ہوتا ہے۔ اگر کوئی بیٹ پرسویا ہو تو ہم اس کے سامنے نماز پڑھ سکتے ہیں ، یعنی ہمارا چہرہ قبلہ کی طرف ہے اور ہمارے سامنے بیٹ ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔(ا) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیٹنے کی صورت امام کے سامنے جنازہ کی طرح تھی۔
(ب) سوئے ہوئے شخص کے چہرے سے ہٹ کر دھڑ یا ٹانگوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا درست ہے ،جبکہ سوئے ہوئے شخص سے کوئی ایسی بات ہونے کا اندیشہ نہ ہو جو نماز میں خلل کا موجب ہو۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها….أن البني صلي الله عليه وسلم كان يصلي من الليل وأن معترضة بينه وبين القبلة كاعتراض الجنازة.(ص: 366، ج: 1)
ولا يكره(صلاة إلى ظهر قاعد)أو قائم ولو يتحدث.قيد بالظهر احترازاً عن الوجه فإنها تكره إليه كما مر. وجي قوله يتحدث إيماء إلي أنه لاكراهة لو لم يتحدث بالأوليی ولذا زاد الشارح ولو. وفي شرح المنية أفاد به نفي قول من قال بالكراهة بحضرة المتحدثين وكذا بحضرة النائمين وماروي عنه عليه السلام لا تصلوا خلف نائم ولا متحدث فضعيف وصح عن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من صلاة الليل وأنا معترضة بينه وبين القبلة فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت .روياه في الصحيحين. وهو يقتضي أنها كانت نائمة. وما في مسند البزاز أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نهيت أن أصلي إلى النيام والمتحدثين فهو محمول علي ما إذا كانت لهم أصوات يخاف منها التغليظ أو الشغل وفي النائمين إذا خاف ظهور شيء يضحكه. (شامی، ص: 482، ج: 1)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved