• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مضاربت کی رقم سے خریدے ہوئے مال کی قیمت بڑھ جائے تو نفع کس کا ہو گا؟

استفتاء

ایک شرعی مسئلہ پوچھنا ہے کاروباری نوعیت کا۔ دو شخصوں نے مل کر کاروبار کیا ایک نے پیسہ لگایا دوسرے نے وقت لگایا ، کاروبار چلتا رہا اور نفع تقسیم ہوتا رہا ، پھر کچھ ایسا ہواکہ اس کو کاروبار بند کرنا پڑا ، اب مسئلہ یہ ہے کہ آج سے تقریبا  تین  چار سال پہلے ایک بندے نے دس لاکھ لگایا لیکن اب  اس دس لاکھ  میں سے خریدی ہوئی چیزیں 20 لاکھ کی ہو چکی ہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دس لاکھ کب علیحدہ کرے گا؟سامان بیچ کر 10 لاکھ الگ کرے گا اور باقی 10 لاکھ ان کے درمیان تقسیم ہوں گے ، یا  کیا صورت ہو گی ؟ پلیز رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: کاروبار کس چیز کا تھا اور قیمت کن چیزوں کی بڑھی ہے؟

جواب  وضاحت: فاسٹ فوڈ اینڈ برگر کا کام تھا اور اس کام کے لیے کچھ مشینری وغیرہ خریدی تھی اس کی قیمت بڑھ گئی ہے اور ایسا مہنگائی کی وجہ سے ہوا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں وہ سامان بیچ کر جو 20لاکھ روپے حاصل ہونگے ان میں سے دس لاکھ روپے سرمایہ لگانے والے کو ملیں گے اور باقی دس لاکھ اس کاروبار میں نفع شمار ہوگا جو آپس میں طے شدہ تناسب سے دونوں میں تقسیم ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں یہ مال مضاربت میں ہی شمار ہو گا اور اس کے نفع میں دونوں شریک ہوں گے کیونکہ مذکورہ  صورت میں اگرچہ وہ مشینری وغیرہ تجارت (آگے فروخت کرکے نفع کمانے) کی نیت سے نہیں خریدی گئی تھی بلکہ وہ کاروبار کرنے کے لئے بطور آلات کے خریدی گئی تھی لیکن سرمایہ والے کا سرمایہ لگانا اور کام کرنے والے کا کام کرنا  اسی لیے تھا کہ اس سرمایہ سے جو نفع حاصل ہوگا وہ باہم تقسیم ہوگا اس لیے ان آلات کی قیمت کے بڑھنے سے بھی اب جو نفع حاصل ہوگا وہ بھی باہم تقسیم ہوگا۔

المبسوط للسرخسی (22/ 113) میں ہے:

فإذا رجع إلى مصره وقد بقي معه ثياب أو طعام أو غيره رده في مال المضاربة لأن استحقاقه قد انتهى برجوعه إلى مصره فعليه رد ما بقي كالحاج عن الغير إذا بقي معه شيء من النفقة بعد رجوعه وكالمولى إذا بوأ أمته مع زوجها بيتا ثم شغلها بخدمته وقد بقي معها شيء من النفقة كان للزوج أن يسترد ذلك منها

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (14/ 167) میں ہے:

 قوله ( ولو رجع إلى بلده وفي يده شيء ) أي شيء من ثياب أو طعام أو غيره رده ؛ لأن جواز الانتفاع لدفع الحاجة في زمان تفريغ نفسه لعمل المضاربة ولم يبق على تلك الحال فيؤمر بالرد إلى مال المضاربة

بدائع الصنائع (2/ 13) میں ہے:

 وعلى هذا لو اشترى المضارب بمال المضاربة عبيدا ثم اشترى لهم كسوة وطعاما للنفقة كان الكل للتجارة وتجب الزكاة في الكل لأن نفقة عبيد المضاربة من مال المضاربة فمطلق تصرفه ينصرف إلى ما يملك دون ما لا يملك حتى لا يصير خائنا وعاصيا عملا بدينه وعقله وإن نص على النفقة

البحر الرائق (2/ 226) میں ہے:

ثم اعلم أنه يستثني من اشتراط نية التجارة للوجوب ما يشتريه المضارب فإنه يكون للتجارة وإن لم ينوها أو نوى الشراء للنفقة حتى لو اشترى عبيدا بمال المضاربة ثم اشترى لهم كسوة وطعاما للنفقة كان الكل للتجارة وتجب الزكاة في الكل لأنه لا يملك إلا الشراء للتجارة بمالها وإن نص على النفقة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved