• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدرسہ کے لیے وقف نامے کا جائزہ

استفتاء

زمين وقف برائے مدرسہ

میں (واقف ) یہ زمین جو (مساحت زمین ) ہے ، اسی طرح جو تعمیرات وغیرہ اس میں موجود ہیں ، کو مدرسہ کے لیے اس طور پر وقف کرتا ہوں کہ اس کا مالک و متولی (فلاں) ہوگا اور ہمیشہ تک رہے گا، (فلاں) کو اس مدرسہ اور اس کے تمام متعلقات ولوازمات کا کلی وجزئی اختیار ہے ۔وہ اس مدرسہ کو جس طرح چلانا چاہے کسی کو اس میں معلم لگائے یا کسی معلم کو خارج کر دے کوئی تعمیر اس میں کرے یا نہ کرے ، کس طرح بنائے یا کسی طرح نہ بنائے اسی طرح کسی متعلم / متعلمہ کو داخلہ دے یا اخراج کرے اور اس میں بنین سیکشن بنائے یابنات وغیره وغیرہ اس پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی اور انسان کو اس میں دخل اندازی کی اجازت ہوگی ۔

اسی طرح یہی (فلاں) کسی اور انسان کو اس مدرسہ و لوازمات کا مالک و متولی بنا سکتا ہے، کسی انسان کو اپنا نائب بنا سکتا ہے کسی کو سپرد و حوالہ کر سکتا ہے وغيره وغيره ، (فلاں) جس انسان کو مالک و متولی بنائے اس کو بھی مدرسہ اور اس کے تمام متعلقات ولوازمات کا کلی و جزئی اختیار ہوگا اسی طرح سلسلہ در سلسلہ لا الی النہایہ تک .

 (فلاں) یا اس کا متعین کردہ مالک و متولی ، سلسلہ در سلسلہ کو اس بات و کام کا بھی اختیار ہوگا کہ اگر یہ مناسب سمجھے تو اس مدرسہ اور اس کے متعلقات ولوازمات بیچ بھی سکتا ہے  پھر اس کی رقم کو مدرسہ ہی کے مفاد میں استعمال کرے یا کسی اور دینی و فلاحی کام میں استعمال اور خرچ کرے۔

نوٹ : وقف کی شرعی باریکیوں کی وجہ سے اگر کبھی راستہ روک و بند ہو جائے مسئلہ حل نہ ہو پا رہا ہو تو (فلاں ) اور اس کے متعین کرده مالک و متولی سلسلہ در سلسلہ کو اس کے حل کرنے کا بھی اختیار ہے جس طرح مناسب سمجھے اسی طرح حل کر لیں ۔

مذکورہ بالا تحریر پر میں اپنے والد سے برائے مدرسہ  زمین وصول کرتا ہوں ، اس تحریر پر ان سے دستخط اور انگوٹھا لگوانا چاہتا ہوں ، تو آپ اس تحریر کا  شرعی جائزہ  لیں کہ اس میں کوئی غلطی تو نہیں خصوصاً وقف کے باب میں؟

نوٹ: دارالافتاء کے نمبر سے والد سے رابطہ ہوا تو انہوں نے مذکورہ تحریر کی تصدیق کی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ تحریر میں چند باتیں قابل اصلاح ہیں:

1۔جہاں جہاں” مالک” کا لفظ لکھا ہے اسے کاٹ دیا جائے اور مذکورہ تحریر کی عبارت “اور ہمیشہ تک رہے گا” کی بجائے “اور تاحیات رہے گا” کے الفاظ لکھے جائیں۔

2۔مذکورہ تحریر میں جہاں مدرسہ اور اس کے متعلقات و لوازمات کو بیچ کر اسکی رقم مدرسہ یا فلاحی کاموں میں استعمال کرنے کا ذکر ہے وہاں یہ بات واضح کر دی جائے کہ یہ رقم تعمیر یا کسی ایسی چیز کے خریدنے میں صرف کی جائے جس کی ذات کو باقی رکھ کر نفع اٹھایا جائے۔

توجیہ: 1۔ مالک کے لفظ سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ واقف زمین کو کسی کی ملکیت میں دے رہا ہے جبکہ وقف کی جانے والی چیز کسی کی ملکیت میں نہیں جاتی۔

توجیہ:2۔ وقف کے صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وقف کی گئی چیز کی ذات کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ اٹھایا جائے یا اس کے بدل کو باقی رکھ کر فائدہ اٹھایا جائے۔

شامی(6/539) میں ہے:

فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن.

شامی(5/526) میں ہے:

‌فإن ‌شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع.

شامی(6/589) میں ہے:

اعلم أن ‌الاستبدال ‌على ‌ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح۔

الدر المختار مع  رد المحتار  (4/ 385) میں ہے :

 (و) جاز (شرط الاستبدال به )أرضا أخرى حينئذ (أو) شرط (بيعه ويشتري بثمنه أرضا أخرى إذا شاء فإذا فعل صارت الثانية كالأولى في شرائطها۔

فتاوی عالمگیری  (2/ 362)میں ہے :

وأما وقف ما لا ينتفع به إلا ‌بالإتلاف كالذهب والفضة والمأكول والمشروب فغير جائز في قول عامة الفقهاء.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved