• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدرسے کے لیے وقف جگہ پر مسجد بنانا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے تقریبا 25 مرلے جگہ مدرسے کے لیے وقف کی،زبانی کہا ہے کہ” یہ مدرسے کے لیے جگہ دیتے ہیں” اب  اہل مدرسہ مستقبل میں طلباء  کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ  نیچے پوری زمین مدرسے کے لیے استعمال ہو اور کچھ حصے میں تقریبا چار یا پانچ مرلے میں اوپر والی منزل میں مسجد بنا دی جائے جو طلباء کے لیے بھی استعمال ہو اور اہل محلہ کے لیے بھی استعمال ہو اور اس پلاٹنگ میں کوئی  مسجد ابھی تک نہیں ہے تو کیا اس صورت میں یہ مسجد، مسجد شرعی کہلائے گی یا محض مصلی کہلائے گا؟

تنقیح: سائل نے 13 مرلہ جگہ خود خریدی ہے۔ 5 مرلے اس کے بھائی نے دی ہےاور  7 مرلے کسی اور اجنبی نے دی ہے۔ سب نے مدرسے کے لیے جگہ دی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اوپر والی منزل کو مسجد بنانا درست ہے اور یہ مسجد شرعی مسجد کہلائے گی اور نیچے کی  جگہ مدرسہ ہی رہے گی الا یہ کہ اہل مدرسہ نیچے کی جگہ کو بھی مسجد میں شامل کرنے کی نیت کر لیں۔

شامی (4/366) میں ہے:

صرحوا ‌بأن ‌مراعاة غرض الواقفين واجبة ………. شرط ‌الواقف ‌كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة.

فتاوی شامی(4/357)  میں ہے:

“(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس، (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

(قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض؛ لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح، وشرط في المصباح: أن يكون ضيقاً، نهر، (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجداً.”

البحر الرائق(5/271)  میں ہے:

“حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله وتعالى: ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ﴾ بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح، فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟ قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً، وبنى غرفةً وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني، لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق”.

فتاوی محمودیہ (15/485) میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’اگر قریب میں کوئی دوسری مسجد نہیں جس میں اہل مدرسہ نماز ادا کرسکیں ،یا مسجد تو موجود ہےمگر تنگ ہےکہ سب اس میں سما نہیں سکتے،یا وہاں نماز پڑھنے جانے کے لیے جانے سے مدرسہ کی مصالح فوت ہوتی ہے،مثلاً وقت کا زیادہ حرج ہوتا ہے،یامدرسہ کی حفاظت نہیں رہتی وغیرہ،تو مدرسہ کی زمین میں مسجد بنانا ضروریاتِ مدرسہ میں شامل ہے،ایسی حالت میں مسجد مسجدِ شرعی ہوگی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved