• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وقفہ کی مقدار

  • فتوی نمبر: 11-99
  • تاریخ: 14 مارچ 2018

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں مسجد نور تبلیغی مرکز چنیوٹ میں نماز مغرب سورج غروب ہو نے کے ٹھیک 10 منٹ بعد کھڑی کرادی جاتی ہے بعض احباب کی رائے یہ ہے کہ جمعرات کے روز شب جمعہ کے موقع پر اگر اس میں مزید پانچ منٹ کا وقفہ بڑھا دیا جائے تو مناسب ہو گا تاکہ وہ احباب جو مختلف دیہاتوں سے شب جمعہ کے اعمال میں شرکت کے لیے تشریف لاتے ہیں وہ مرکز کی بڑی اجتماعی نماز میں شریک ہوسکیں اسی طرح وہ احباب جو خدمت کے مختلف کاموں مثلا پہرہ، سائیکل سٹینڈ وغیرہ پر مامور ہیں وہ مرکز کے مین گیٹ کے سامنے محلہ کی چھوٹی مسجد میں نماز مغرب سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کاموں پر آجائیں تو پھر مرکز کی اجتماعی نماز کھڑی کی جائے اس کیلئے کم از کم 15منٹ کا وقفہ درکار ہے لیکن بعض احباب کی رائے یہ ہے کہ 10منٹ کا وقفہ بھی زیادہ ہے اگر اذان مغرب کے متصل بعد فورا نماز کھڑی کردی جائے تو مناسب ہو گا ۔باقی جو احباب خدمت  کے مختلف کاموں پر مامورہیں یاجن کو پہنچنے میں دیر ہو جائے تو مرکز کی اجتماعی نماز کے بعد مسجد سے الگ کسی کمرہ میں اکٹھے یا متفرق طور پر اپنی اپنی جماعتیں کروالیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فر ما کر ممنون فرمائیں کہ ہمارے لیے کون سی صورت زیادہ بہتر ہوگی اور اذان مغرب کے بعد نماز کھٹری ہو نے کے درمیان کتنے وقت کی تاخیر کی اجازت ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مغرب کی نماز میں مستحب یہ ہے کہ اذان اور جماعت کے درمیان اتنا وقفہ نہ ہو کہ جس میں دو رکعت پڑھی جاسکیں،دورکعت کے بقدر یا اس سے زائد وقفہ کرنا مکروہ تنزیہی یا کم از کم خلاف مستحب ہے اور دورکعت کے بقدر یا اس سے زائد وقفہ کرنے کو مستقل معمول بنانا کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ۔

چنانچہ امداد الفتاوی1/104 میں ہے:

’’تاخیر مغرب کے تین درجے ہیں ۔ایک درجہ تو دو رکعت سے کم ،یہ کسی کے نزدیک مکروہ نہیں۔دوسرا درجہ بقدر دورکعت کے یا اس سے زائد قبل ظہور نجم تک ،یہ در مختار کی روایت پر مکروہ تنزیہی ہے اور شارح منیہ کی تحقیق پر مباح ،مگر خلاف مستحب ۔۔۔۔اور ترک مستحب پر بلا ضرورت دوام کرنا ایسا فعل ہے کہ بعض فقہاء نے اس پر مکروہ تنزیہی کا اطلاق کیا ہے ۔‘‘

لہذا دو رکعت کے بقدر یا اس سے زائد وقفہ کرنے کو عام دنوں میں معمول بنانا صحیح نہیں البتہ جن دنوں میں مجمع زیادہ ہو (مثلاشب جمعہ میں)تو ان دنوں میں اتنی تاخیر کرسکتے ہیں جس میں موجود مجمع کی اکثریت وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر جماعت میں شامل ہو سکے ۔تاہم مختلف دیہاتوں سے آنے والوں کی شرکت کی غرض سے یا مختلف کا موں پر مامور افراد کی فراغت کے انتظار کی وجہ سے تاخیر کرنا درست نہیں۔جن احباب کو مختلف دیہاتوں سے آنے میں تاخیر ہو جائے یا جو افراد خدمت کے مختلف کاموں پر مامور ہوں تو مرکز کی اجتماعی جماعت کے بعد مسجد سے الگ کسی کمرہ میں اکٹھے یا متفرق طور پر جماعت کروالیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved